۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
مولانا سید ابوالقاسم رضوی

حوزہ/ میلبورن آسٹریلیا کے امام جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ابو القاسم رضوی نے رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے اس سال کے حج کو حج برائت کا نام دیے جانے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، میلبورن آسٹریلیا کے امام جمعہ حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ابو القاسم رضوی نے رہبر انقلاب اسلامی کی جانب سے اس سال کے حج کو حج برائت کا نام دیے جانے پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔

اس سال جب حج کے مناسک انجام پا رہے ہیں، عالم اسلام کے ایک اہم حصے یعنی فلسطین اور غزہ میں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ہو رہے ہیں، رہبر انقلاب آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اس بات پر زور دیا کہ امت مسلمہ اپنے عظیم الشان سالانہ اجتماع یعنی حج میں اس اہم مسئلے اور المئے کو نظر انداز نہیں کر سکتی، بنابریں اس سال کے حج کو آپ نے «حج برائت» قرار دیا ہے۔

سوال: آپ اس تعلق سے کیا سوچتے ہیں؟

جی بے شک! دیکھئے حج برائت قرار دینا، برائت کے معنی دوری کے ہیں اور یقینا لوگوں میں اویئرنس (بیداری) آنی چاہیے اور ہمارے پاس حج سے بڑا کوئی پلیٹ فارم بھی نہیں ہے۔ کیونکہ امت مسلہ حج کے موقع پر جمع ہوتی ہے، پوری دنیا کے لوگ آتے ہیں اور الحمد للہ اب یہ ہوا ہے کہ لوگوں میں اویئرنس (بیداری) آئی ہے، پوری دنیا بیدار ہوئی ہے، فلسطین کے مسئلے کو سمجھ رہی ہے، ساری دنیا میں احتجاج ہو رہے ہیں، ساری دنیا کی یونیورسٹیز خود امریکہ کے اندر، یورپ کے اندر، آسٹریلیا کے اندر ہر جگہ لوگ آواز بلند کر رہے ہیں، اسکول کے بچے باہر نکل رہے ہیں، اسٹاف باہر نکل رہا ہے، لوگ مذمت کر رہے ہیں، لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ مسلمان ابھی پوری طرح سے بیدار نہیں ہوا ہے، دنیا بیدار ہو رہی ہے اور حج میں جب پوری دنیا کے لوگ آتے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ ان تمام لوگوں کے ذریعے پیغام دیا جائے۔ کالجسد الواحد والا جو ہمارے پاس عقیدہ موجود ہے اور رسول کی حدیث ہے تو آخر ہمیں یہ احساس کیوں نہیں ہو رہا ہے اور اس احساس کو دوسروں تک منتقل کیا جائے اور اس حج کا پورے سے پورا فائدہ اٹھایا جائے۔

سوال: رہبر انقلاب نے اپنے اس موقف کے لئے قرآن کی اس آیت کو بنیاد قرار دیا: «وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَةُ وَ البَغضاء...»(سورہ ممتحنہ آیت 4). آپ اس کی کس طرح تشریح کریں گے؟

جی یہ سوال کہ وَ بَدا بَینَنا وَ بَینَکُمُ العَداوَةُ وَ البَغضاء... تو خداوند تعالی نے انسان کی فطرت میں خیر کے لئے محبت اور شر سے نفرت اور اس کے لئے عداوت ڈالی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان عدل کو پسند کرتا ہے، ظلم کو ناپسند کرتا ہے اور اچھے لوگوں سے اسے محبت ہوتی ہے، برے لوگوں سے دور رہنا چاہتا ہے، سچ اور جھوٹ اس میں بھی یہی معاملہ ہے، جبکہ دین کی بنیاد ہی محبت ہے لیکن محبت کمال پر پہونچے گی اس وقت کہ جب خیر کے لئے محبت ہو اور شر کے لئے دل میں نفرت ہو اور عداوت پائی جاتی ہو اور اس بنیاد کے اوپر قرآن مجید کی جس آیت کو رہبر معظّم نے فلسطین کے تعلّق سے اپنے موقف میں اس کا اشارہ کیا بالکل مناسب ہے، کیونکہ دیکھ بھی سکتے ہیں آپ کہ اس وقت فلسطین کے مسئلے میں پوری دنیا ایک ہو رہی ہے اور پوری دنیا کے لوگ جن کا کوئی بھی مذہب ہو، عیسائي ہیں، ہندو ہیں، خود یہودی بھی کیونکہ معاملہ مذاہب اور فرقے کا نہیں ہے، ظالم اور مظلوم کا ہے، فلسطینی مظلوم ہیں، لہذا اس قا‏عدہ و کلیے کی بنیاد پر مظلوموں سے محبت، اس قاعدہ و کلیے کی بنیاد پر ظالم سے نفرت۔

سوال: اعلان برائت کی حدود اور اس کا دائرہ کیا ہے؟
بالکل دیکھئے اس کا دائرہ کار تو یہ ہے کہ اویئرنس (بیداری) کا کمپین چل رہا ہے پوری دنیا میں چل رہا ہے۔ صبح شام گفتگو ہو رہی ہے، سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہے لیکن اس کو بہت زیادہ وائرل کرنے کی ضرورت ہے، لوگ اپنے اسکول میں، کالجز میں، جاب پر، بزنس میں، جن لوگوں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں، جن سے ان کے تعلقات ہیں، اس کو جتنا عام کر سکتے ہیں اتنا عام کریں۔ کیونکہ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ مظلوم کی مظلومیت کا دنیا کو پتہ چلے گا، ظلم سے نفرت ہوگی اور ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا تمام شریف انسان اگر اس مسئلے پر متفق ہو گئے، اس اویرنس کمپین کو انہوں نے آگے چلایا تو اس کے نتیجے میں اسرائیل اور امریکہ جن کی ہمیشہ سے پالیسی یہ رہی ہے کہ جو بھی مظلوم کے حق میں بولتا تھا اس کو تنہا کرتے تھے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ انہیں آئسولیٹ (الگ تھلگ) کیا جائے، انہیں اکیلا کر دیا جائے کہ انسانی سماج میں رہنے کے لائق یہ لوگ نہیں ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .