حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی نے اتوار 21 جولائي 2024 کی صبح پارلیمنٹ کے اسپیکر اور اراکین سے ملاقات کی، آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے اس ملاقات میں اپنے خطاب کے دوران قانون سازی اور اس کی ضروری اور غیر ضروری باتوں کے تعلق سے پارلیمنٹ کی ذمہ داریوں کے بارے میں اہم نکات بیان کئے۔ انہوں نے حکومت کے ساتھ تعاون، ملک کے تمام اہم اداروں کی جانب سے ایک ہی آواز باہر آنے اور غیر ملکی مسائل اور خارجہ پالیسی کے میدان میں پارلیمنٹ کے کردار اور اس کی جانب سے سنجیدہ اقدامات پر زور دیا۔
انھوں نے بین الاقوامی مسائل کے سلسلے میں پارلیمنٹ کی اہم صلاحیتوں اور گنجائشوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ ایک اہم ستون ہے اور دنیا کی حکومتیں اپنے اہم امور میں اس سے استفادہ کرتی ہیں۔
انھوں نے غزہ کے مسئلے کو غیر ملکی مسائل میں پارلیمنٹ کی سرگرمیوں کا ایک مصداق بتایا اور اس سلسلے میں کام کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ غزہ کا مسئلہ بدستور عالم اسلام کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ غاصب اور خبیث حکومت کے جرائم کے آغاز کو مہینوں بیت جانے کے بعد بعض لوگوں میں ان جرائم کی مذمت اور ان کے مقابلے کے سلسلے میں پایا جانے والا ابتدائي جوش کم ہو گيا ہے لیکن غزہ کے مسئلے کی اہمیت آج ابتدائي دنوں سے بھی زیادہ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مزاحمت کی روز افزوں طاقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکا جیسی ایک بڑی سیاسی، معاشی اور عسکری طاقت غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ مل کر مزاحمت کے ایک چھوٹے سے گروہ سے لڑ رہی ہے اور چونکہ یہ دونوں خبیث طاقتیں حماس اور مزاحمت کو ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہیں اس لیے اپنے بم اسپتالوں، اسکولوں اور بچوں، عورتوں اور مظلوم لوگوں پر گرا رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ جرائم اور درندگي دنیا کے لوگوں کی نظروں کے سامنے ہو رہی ہے اور وہ غاصب و خبیث حکومت کے خلاف فیصلہ کر رہے ہیں اور مسئلہ بدستور جاری ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای نے غیر ملکی مسائل میں پارلیمنٹ کی جانب سے کردار ادا کیے جانے کے سلسلے میں کہا کہ پارلیمنٹ اس سلسلے میں حکومت کے ہاتھ مضبوط کر سکتی ہے اور خارجہ پالیسی کے سلسلے میں پارلیمنٹ کے اچھے اور مؤثر اقدامات میں سے ایک گیارہویں پارلیمنٹ کا اسٹریٹیجک ایکشن کا قانون ہے، البتہ بعض لوگوں نے اس قانون پر اعتراض کیا اور اس میں عیب نکالے کہ جو پوری طرح سے بے بنیاد ہے۔
انھوں نے عالمی تغیرات اور سفارت کاری کے میدان میں اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے کردار ادا کیے جانے کو مؤثر بتایا اور کہا کہ برکس کے اجلاس میں پارلیمنٹ کے اسپیکر کی مفید موجودگي سمیت اسپیکر اور اراکین پارلیمنٹ کے دورے اور ملاقاتیں مؤثر رہی ہیں اور خارجہ پالیسی کے مسائل کے بارے میں کبھی کبھی اراکین پارلیمنٹ کا صرف ایک اعلامیہ یا بیان بھی اہم اور مؤثر ہوتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے حکومتوں کی جانب سے پارلیمنٹ کو سہارے کے طور پر استعمال کئے جانے کو دنیا میں ایک رائج روش بتایا اور کہا کہ اس کی ایک مثال سیسادا (CISADA) کے نام سے موسوم اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکا کی وسیع پابندیوں کا قانون ہے جسے امریکی پارلیمنٹ نے منظور کیا اور اس وقت کے ریپبلکن صدر نے جو منافق انسان تھا، اس پر دستخط کیے۔
انھوں نے پابندیوں اور انھیں ناکام بنانے میں پارلیمنٹ کے کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہم پابندیوں کو اچھے طریقوں سے دور بلکہ ناکام بنا سکتے ہیں۔ پابندیوں کو ناکام بنانا ہمارے ہاتھ میں ہے اور اس کے لیے اچھے راستے بھی پائے جاتے ہیں اور پارلیمنٹ اس مسئلے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔
آيت اللہ العظمیٰ خامنہ ای نے حکومت، عدلیہ اور مقننہ کے درمیان یکجہتی اور تعاون پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نظام کے مختلف ستونوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہیے اور اس کے لیے ان کے درمیان تعاون، یکجہتی اور کبھی کبھی چشم پوشی ضروری ہے۔
انھوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے سامنے جو ایک فوری کام ہے وہ جناب پزشکیان صاحب کی کابینہ کو اعتماد کا ووٹ دینا ہے۔ انھوں نے منتخب صدر کی کابینہ کے اراکین کے لیے ضروری خصوصیات اور معیارات کے بارے میں کہا کہ ایسے شخص کو میدان میں لانا چاہیے جو مومن، امانت دار، سچا، دیندار، دل سے اسلامی جمہوریہ پر اعتقاد رکھنے والا اور مستقبل کی طرف سے پرامید ہو۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امید ظاہر کی کہ ان معیارات پر عمل اور صدر اور پارلیمنٹ کی جانب سے مشترکہ ذمہ داری ادا کیے جانے سے ایک اچھی، کارآمد، دیندار اور انقلابی کابینہ کا انتخاب عمل میں آئے گا جو ملک کے امور کو آگے بڑھا سکے گي۔