۲۳ آذر ۱۴۰۳ |۱۱ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 13, 2024
اسماعیل ھنیہ

حوزہ/ حماس کے رہنما شہید اسماعیل ہنیہ اور جہاد اسلامی کے رہنما جناب زیادہ النخالہ نے ایران کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے پہلے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد ان دونوں شخصیات سے ویب سايٹ KHAMENEI.IR نے ایک انٹرویو کیا تھا، جس کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حماس کے رہنما شہید اسماعیل ہنیہ اور جہاد اسلامی کے رہنما جناب زیادہ النخالہ نے ایران کے نئے صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت سے پہلے رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد ان دونوں شخصیات سے ویب سايٹ KHAMENEI.IR نے ایک انٹرویو کیا تھا، جس کے کچھ حصے پیش خدمت ہیں۔

سوال: الحاج اسماعیل ہنیہ اور الحاج زیاد نخالہ، آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں یہ موقع دیا۔ ایسے وقت میں جب طوفان الاقصیٰ آپریشن شروع ہوئے تقریباً 10 ماہ گزر چکے ہیں، مزاحمتی محاذ کے ایک دوسرے بازو نے تل ابیب کے مرکز پر حملے شروع کیے اور بڑی حد تک صیہونیوں کو سمندری محاصرے میں لے لیا۔ یمن کے آپریشن اور شمالی محاذ پر کارروائیوں کے نتیجے میں اس علاقے کی صیہونی بستیاں خالی ہو رہی ہیں اور اسرائیلی فوج کو شکست کا سامنا ہے۔ جنگ اور محاصرے کے 10 ماہ بعد مزاحمت کی طاقت میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر جنگ جاری رہی تو مختلف محاذوں پر مزاحمت کا اگلا قدم کیا ہوگا؟

اسماعیل ہنیہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سب سے پہلے میں اسلامی جمہوریۂ ایران کے مرکز سے، فلسطینی عوام اور غزہ، مغربی کنارے اور دوسری تمام جگہوں پر ان کی شجاعانہ مزاحمت کو سلام کرتا ہوں اور اسی طرح ان تمام مزاحمتی محاذوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جو طوفان اقصیٰ کے حامی اور ہمارے عوام اور ہماری مزاحمت کے مددگار ہیں۔

بلا شبہ، مزاحمت کے مضبوطی سے ڈٹے رہنے کی طاقت کے پیچھے تین اہم عناصر ہیں:

پہلا عنصر ایمان اور عقیدہ ہے۔ اس سرچشمے سے نکلنے والی ایمانی اور جہادی شخصیت ہی ہے جس نے مزاحمت کو میدان میں استقامت کی طاقت، قربانی، صبر اور اس راستے کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت فراہم کی ہے۔

دوسرا عنصر فوجی تیاری ہے۔ طوفان الاقصیٰ آپریشن سے پہلے مزاحمتی محاذ نے ایک طویل عرصے سے اپنی آمادگي کے ذریعے اپنے اندر توانائياں ایجاد کیں اور انھیں بڑھایا اور ضروری وسائل حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تاکہ یہ جنگ اور تاریخی معرکہ شروع کر سکیں۔ جنگ کو ممکن بنایا جا سکے۔ یہ صحیح ہے کہ ہماری اور دشمن کی طاقت کے توازن میں بڑا فرق ہے لیکن مزاحمت کی داخلی صلاحیتیں اور مزاحمتی محاذ کی مدد نے اس راستے کو جاری رکھنے میں مدد کی۔

تیسرا عنصر اسٹریٹیجک اتحاد ہے۔ اس مزاحمت نے اپنے تعلقات کو مزاحمتی محاذ، قوم کے افراد کے ساتھ اور اس قوم میں اور اس خطے میں اپنی اسٹریٹیجک گہرائی کے ساتھ برقرار رکھا ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر اس نے دیگر ممالک کے ساتھ بھی تعلقات استوار کیے ہیں، چاہے وہ لاطینی امریکا میں ہوں یا روس، چین، اور جنوبی افریقا جیسے دیگر مقامات پر ہوں۔

ان تمام عوامل نے مزاحمت کے لیے سلامتی کونسل اور دیگر جگہوں پر سیاسی سہارے پیدا کیے۔

میرا ماننا ہے کہ یہ تینوں پہلو، یعنی ایمانی، فوجی اور سیاسی پہلو یعنی اسٹریٹیجک اتحاد، خداوند عالم کے فضل و کرم کے رہین منت ہیں جو اس شجاعانہ مزاحمت کا لازوال منبع ہے۔

جیسا کہ آپ نےکہا، اس میں کوئی شک نہیں کہ لبنان، یمن، عراق میں مزاحمتی محاذوں نے جو کچھ کیا ہے اور یمن کے انصار اللہ برادران کی طرف سے تل ابیب کو ایک ڈرون کے ذریعے نشانہ بنانا، فلسطین کے باہر سے صیہونی حکومت کے خلاف جنگ میں ایک اچھی نئي تبدیلی لا چکا ہے۔

ہمارا ماننا ہے کہ ہم ایک انتہائی اہم اور فیصلہ کن لمحے میں ہیں، ہمارے پاس فتحیابی کے لیے ایک بہترین موقع ہے، ان شاء اللہ۔ حالانکہ ہمارے سامنے کچھ چیلنجز ہیں جو آسان نہیں ہیں، خاص طور پر غزہ میں ہمارے عوام کے حالات، قتل، قتل عام، جنگ، تباہی، آوارہ وطنی، اور جو کچھ دشمن غرب اردن میں کر رہا ہے۔

لیکن ان شاء اللہ، ہم فتح کی طرف، فتح کے راستے پر بڑھ رہے ہیں، اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے۔

سوال: میں الحاج ابوطارق سے بھی یہی سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ مزاحمت، طوفان الاقصیٰ کے آغاز کے دنوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ اگر جنگ جاری رہتی ہے تو اس محاذ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیش نظر مختلف میدانوں میں مزاحمتی محاذ کے اگلے اقدامات کیا ہوں گے؟

زیاد النخالہ: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ سب سے پہلے، مزاحمت کی یہ طاقت، جو دس ماہ سے جاری ہے اور ان شاء اللہ فتح تک جاری رہے گی، اسلامی و قرآنی فکر اور بنیاد پر مبنی ہے، جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ "اور جتنی طاقت اور تیار بندھے ہوئے گھوڑے (ممکن) ہوں ان (دشمنوں) کے مقابلے کے لیے تیار رکھو۔"

سب سے پہلے، قرآن اور اسلامی ثقافت کی بنیاد پر صحت مند اور مضبوط روش کے ذریعے معاشرے کی تیاری۔

دوسرے، مزاحمتی فورسز کی مناسب آمادگي اور جنگ اور جہاد کے لیے ان کی مناسب تیاری۔

یہ دو بنیادی نکتے، میدان میں فلسطینی معاشرے اور مزاحمت کی استقامت کے اصل عوامل ہیں اور مزاحمتی فورسز اور مجاہدین میدان میں مسلسل جنگ اور امتحان کی حالت میں ہیں اور ان کی جہادی سرگرمیاں روز بروز پیشرفت کر رہی ہیں۔

اس کے علاوہ، دشمن جو روزانہ فلسطینی شہریوں، بچوں اور عورتوں کے خلاف جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، وہ اس دشمن کو سزا دینے کے لیے فلسطینی نوجوانوں اور مجاہدین کا بڑا محرک ہے۔

آپ میدان میں مجاہدین کی بہادری اور دلیری دیکھ رہے ہیں، جو دس مہینے سے اسرائیلی فوج کے ساتھ کس طرح لڑ رہے ہیں اور ان کی فوجی گاڑیوں اور سپاہیوں کو تباہ کر رہے ہیں۔ دنیا نے کبھی نہیں دیکھا تھا کہ کوئی مجاہد دشمن کی گاڑیوں کی طرف بڑھے اور بارودی سرنگیں اور بم ٹینک کی چھت پر رکھ دے جبکہ یہ مناظر بارہا دوہرائے گئے ہیں اور بہت سے ایسے مناظر بھی ہیں جو میدان جنگ کی صورتحال کی وجہ سے کیمرے میں قید نہیں کیے جا سکے۔

فلسطینی عوام کی یہ تاریخی استقامت پورے علاقے میں پھیلی ہوئی ہے اور فلسطینی عوام محسوس کرتے ہیں کہ خطے میں بھی ان کے اتحادی ہیں اور یہ وہی مزاحمتی محاذ ہے جو فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں کھڑا ہوا ہے۔ یہ موضوع بہت اہم ہے اور صرف جنگ کے ان دنوں سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ اسلامی جمہوریہ اور فلسطینی مزاحمت، حزب اللہ اور عراقی مزاحمت اور اسی طرح یمن میں ہمارے بھائیوں کے درمیان ایک تعلق ہے۔ اس علاقے کی تمام قومیں مسلمان ہیں اور ان میں باہمی اتحاد اور یکجہتی ہے۔

لہذا علاقے میں اسلامی موقف کا یہ اتحاد، روحانی اور عملی طور پر فلسطینی قوم کی مزاحمت پر بہت اثر انداز رہا ہے۔

ان شاء اللہ یہ جنگ دشمن کی شکست کے بغیر ختم نہیں ہوگی۔ صیہونی معاشرے میں انتشار کے نشانات لوگوں کی نظروں کے سامنے ظاہر ہو رہے ہیں اور فلسطین کے اتحاد، میدان جنگ اور سیاست میں مزاحمت کے اتحاد کی علامتیں بھی ظاہر ہیں۔ اس کی اس سے بڑی دلیل کیا ہوگي کہ آج فلسطین میں اسلامی تحریک، فلسطین میں مجاہدین اور مزاحمتی فورسز ایک آواز ہو کر مذاکرات اور سیاست میں موجود ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مزاحمت نے فلسطینی قوم کو اسرائیل کے خلاف متحد کر دیا ہے۔

اور ان شاء اللہ، ایک فتح کے بعد دوسری فتح اور مزید فتوحات، چاہے جنگ کتنی ہی لمبی ہو جائے۔

سوال: جناب الحاج ابو طارق، آپ نے طوفان الاقصیٰ کے آپریشن کے بعد کئي بار رہبر انقلاب اسلامی امام خامنہ ای (دام ظلہ) سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں کون سا موضوع سب سے زیادہ دوہرایا گیا اور اس پر تاکید کی گئی؟ مختلف مزاحمتی محاذوں کے درمیان ہم آہنگی کے تعلق سے ان ملاقاتوں کی اہمیت کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: سب سے پہلے تو میں یہ کہوں کہ رہبر انقلاب اسلامی سے ملاقات فلسطینی مزاحمت کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے اور اسلامی جمہوریہ نے اپنی تشکیل، قیام اور وجود کے آغاز سے ہی فلسطینی مزاحمت اور عوام کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔

رہبر انقلاب کے ساتھ ملاقاتیں ان کے قلبی اور عقلی عقائد اور مزاحمت کے تعلق سے ان کے واضح اور اعلانیہ موقف اور اسی طرح خطے میں صیہونی پروجیکٹ کے سلسلے میں ان کے مخالفانہ اور مجاہدانہ موقف کی وجہ سے جاری ہیں۔ ان کے اس موقف نے اسلامی جمہوریہ کی طرف سے مزاحمت کی حمایت اور آغوش پھیلا کر مزاحمتی قوتوں کے استقبال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

لہذا بلا شبہ مزاحمت کی پوزیشن کی تقویت اور اس کی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے میں رہبر انقلاب کے تاریخی نظریات اور موقف نے بنیادی کردار ادا کیا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اسلامی جمہوریہ ہمیشہ فلسطین میں مزاحمت کی حقیقی حامی کے صحیح مقام پر رہے۔

اسی لیے ہم ہمیشہ اسلامی جمہوریہ کے رہبر کے بڑے اور تاریخی کردار کو فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں یاد رکھتے ہیں اور فلسطین میں صیہونی پروجیکٹ کے خلاف مزاحمتی فورسز کے اتحاد پر زور دیتے ہیں۔

سوال: الحاج ہنیہ، یہی سوال میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں: آپ نے اس عرصے میں کئي بار رہبر انقلاب سے ملاقات کی ہے۔ ان ملاقاتوں میں کن موضوعات پر زور دیا گیا؟ رہبر انقلاب کے ساتھ ان ملاقاتوں کی اہمیت کیا ہے؟ مجموعی طور پر، مختلف مزاحمتی محاذوں کے درمیان ہماہنگی کے سلسلے میں ان ملاقاتوں کی اہمیت کیا ہے؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، یہ رہبر انقلاب سے آپ کی اور الحاج ابو طارق کی پہلی مشترکہ ملاقات تھی۔

جواب: سب سے پہلے تو یہ کہ یہاں ایران میں رہبر انقلاب سے بار بار ملاقات اس پوزیشن کی گواہ ہے جو رہبر انقلاب اور ایرانی عوام کے ذہن میں مسئلۂ فلسطین کی ہے۔ اس بات کے پیش نظر کہ فلسطین کا مسئلہ، امت مسلمہ کا ایک بنیادی اور مرکزی مسئلہ ہے اور یقیناً کچھ ایسے مسائل بھی ہیں جو ایران کی توجہ اپنی طرف مبذول رکھتے ہیں لیکن پھر بھی فلسطین کا مسئلہ رہبر انقلاب کے ذہن میں سب سے زیادہ ترجیح رکھتا ہے۔

دوسرا موضوع یہ ہے کہ ان نشستوں میں ہمیشہ اس ٹکراؤ کی نوعیت اور اس سے متعلق مختلف پہلوؤں پر بات کی جاتی ہے، چاہے وہ فلسطین کا مسئلہ ہو یا خطے کا۔ اس کے علاوہ، اس صیہونی پروجیکٹ کے مقابلے میں مزاحمت کے استحکام، پائیداری اور طاقتور بنے رہنے کے مسئلے پر بھی بات کی جاتی ہے کیونکہ فلسطین میں مزاحمت خطے اور عوام کی پہلی دفاعی لائن ہے۔

رہبر معظم اس بات کی طرف متوجہ ہیں کہ خدا نخواستہ فلسطین میں مزاحمت کی کسی بھی قسم کی پسپائی اور شکست خطے پر اثرانداز ہوگی اور صیہونی دشمن کو اس علاقے میں نفوذ کرنے کا موقع دے گی بنابریں فلسطین میں مزاحمت کی حمایت شرعی، اسلامی، انسانی اور برادرانہ فریضہ ہے اور اسی طرح اس کا سرچشمہ صیہونی پروجیکٹ سے مقابلے کی ماہیت بھی ہے کیونکہ اس کا خطرہ صرف فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے تک پھیل جائے گا۔

اس لیے مزاحمت کی حمایت کا موضوع ہمیشہ سامنے رہتا ہے کہ کس طرح اس کی حمایت کی جائے، کس طرح اسے فروغ دیا جائے، کس طرح اس کی پشت پناہی کی جائے اور کس طرح اس کی مالی اور عسکری طاقت کو یقینی بنایا جائے۔

تیسرا موضوع، ہمیشہ موضوع گفتگو رہتا ہے اور وہ اس مزاحمت کی پشت پناہی میں مزاحمتی محاذ کا کردار ہے اور یہ کہ اسلامی جمہوریہ کس طرح استقامتی محور اور مزاحمتی محاذ کے لیے زیادہ سے زیادہ ضروری صلاحیتیں فراہم کر سکتی ہے تاکہ وہ اہم کردار ادا کر سکے اور وہ سرزمین فلسطین میں مزاحمت کی بہت اہم پشت پناہی ہے۔

بلاشبہ آج رہبر انقلاب سے ملاقات کا ایک اور مفہوم بھی پیدا ہو گيا ہے اس طرح سے کہ فلسطین کی اسلامی تحریک کا وفد یعنی حماس اور جہاد اسلامی کا وفد ایک مشترکہ وفد تھا۔ یہ اس رشتے، اس بھائی چارے اور سرزمین فلسطین میں اسلام کے فرزندوں کے درمیان اس ایمانی و جہادی اتحاد کی نوعیت کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ قوم کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ قوم متحد ہو، جس طرح آج مزاحمت اور اسلامی تحریک متحد ہے، ہم بھی چاہتے ہیں کہ یہ قوم متحد ہو۔

اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ یہ پیغام اہم تھا اور رہبر انقلاب نے اس ملاقات میں مشترکہ فلسطینی-اسلامی وفد کی موجودگی کو بڑی قدردانی اور فخر کی نظر سے دیکھا۔

آج کی ملاقات کی اہمیت اس بات میں بھی ہے کہ ہم مجلس شورائے اسلامی میں اسلامی جمہوریہ کے منتخب صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک ہوئے۔

رہبر معظم انقلاب سے ہماری ملاقات جناب صدر سے ملاقات کے بعد ہوئی۔ ہم نے فلسطین میں مزاحمت کے بارے میں اسلامی جمہوریہ کے ثابت موقف کی بات سنی اور یہ بات ہمارے لیے باعث اطمینان ہے کہ عہدیداران بدل سکتے ہیں اور موقف تبدیل ہو سکتے ہیں لیکن اس مسئلے میں اور مزاحمت کے بارے میں ایران کی پالیسی اٹل ہے اور تبدیل نہیں ہوگي۔

یہ موقع دینے کے لیے ہم آپ کے شکر گزار ہیں اور خداوند عالم سے فلسطینی عوام کی فتح کی دعا کرتے ہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .