۲۹ شهریور ۱۴۰۳ |۱۵ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 19, 2024
ایت الله خاتمی

حوزہ/ آیت اللہ سید احمد خاتمی نے اس ہفتے تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں کہا: ہمارے پاس ایک منظم نظام ہے، یعنی کب کہاں اور کیسے حملہ کرنا ہے یہ ہم پر منحصر ہے، صہیونی کے دل میں اضطراب اور خوف کی صورتحال رہنی چاہئے، ہم صحیح وقت پر بدلہ ضرور لیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،تہران میں اس ہفتے کی نماز جمعہ آیت اللہ سید احمد خاتمی کی اقتدا میں ادا کی گئی جس میں انہوں نے سیاسی اور عبادی خطبہ دیا۔

آیت اللہ خاتمی نے خطبے کے آغاز میں کہا:سید الشہداء نے یہ دو جملے نصیحت عنوان سے فرمائے :جو شخص خدا کی نافرمانی کر کے کچھ حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا تو اسے جس کی امید ہے وہ چیز حاصل نہیں ہوگی، ور جس چیز سے وہ ڈرتا ہے وہ جلد اس کے نزدیک آجائے گی۔

انہوں نے مزید کہا: آئیے خدا کے حبیب اور دوست بنیں، جو اس خد اکی مصلحت کے اعتبار سے اس سے مانگیں، کیوں بعض وقت ہم خد اکی مصلحت کے بالکل خلاف اس سے مانگتے ہیں، اگر خدا کی مصلحت ہوگی تو وہ چیز ضرور ملے گی، لہذا اصل یہ ہے کہ ہم خدا کے دوست اور حبیب بنیں، پھر اس کے بعد جو چاہیں گے خدا ہمیں عطا فرمائے گا۔

آیت اللہ خاتمی نے کہا: کسی نے امام حسین علیہ السلام سے سوال کیا کہ انسان کی فضیلت کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کی فضیلت یہ ہے کہ اس کی زبان اس کے کنٹرول میں رہے، ضروری نہیں کہ جو بھی زبان پر آئے اسی بول دیا جائے، دوسری یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ نیکی کرے۔

آیت اللہ خاتمی نے تہران میں اسماعیل ھنیہ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: یہ جرم اور وہ جرائم جو غزہ میں سرزد ہورہے ہیں، اس بات کا ثبوت ہے کہ صیہونی حکومت ایک قاتل، بدعنوان اور محارب ہے، اس پلید حکومت کا حق ہے کہ اس کے خلاف اسرائیل مردہ باد کا نعرہ لگایا جائے، نیز اس میں کوئی شک نہیں کہ غزہ میں صیہونیوں دس ماہ سے زائد عرصے سے جو جرائم کر رہی ہے وہ امریکہ کی نگرانی میں انجام پا رہے ہیں، اور اگر یہ ظالم حکومت صیہونیوں کا ساتھ نہ دیتی تو 40 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں شہید نہ ہوتے۔

آیت اللہ سید احمد خاتمی نے اس ہفتے تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں کہا: ہمارے پاس ایک منظم اور مکمل نظام ہے، یعنی کب کہاں اور کیسے حملہ کرنا ہے یہ ہم پر منحصر ہے، صہیونی کے دل میں اضطراب اور خوف کی صورتحال رہنی چاہئے، ہم صحیح وقت پر بدلہ ضرور لیں گے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .