حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،شعبۂ تعلیم و تجارت سے وابستہ بزرگ ماہر وتجربہ کار سابق لیکچرر،حوزہ علمیہ مدرسہ باب العلم مبارکپور کے سابق منتظم و جنرل سکریٹری اور تاجر الحاج ماسٹر امیر حیدر کربلائی حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر قم المقدسہ میں تشریف لائے اور گفتگو کی جسے انٹرویو کے صورت میں ہم پیش کر رہے ہیں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔حوزہ نیوز ایجنسی شعبہ اردو کے دفتر میں آپ کا خیر مقدم ہے۔
ماسٹر امیر حیدر: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ شکریہ۔حوزہ نیوز ایجنسی میں حاضری میرے لئے باعث عزت و شرف ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی:آپ اپنا پورا نام و پتہ ارشاد فرمائیں؟
ماسٹر امیر حیدر:میرا نام امیر حیدر ۔والد کانام الحاج محمد یاسین مرحوم۔میرا پتہ ہے: محلہ پورہ خواجہ ،قصبہ مبارکپور،ضلع اعظم گڑھ(اتر پردیش) انڈیا۔
حوزہ نیوز ایجنسی: آپ کی اس وقت مدتِ عمر کتنی ہوگی؟
ماسٹر امیر حیدر: اس وقت میری مدت ِعمرتقریباً ۷۲؍سال ہے ۔میری تاریخ پیدائش سرٹیفیکٹ میں۱۵؍مارچ ۱۹۵۲ء درج ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی: آپ کی تعلیم ؟
ماسٹر امیر حیدر: ایم اے۔بی ایڈ۔ایل ایل بی
حوزہ نیوز ایجنسی: عہدے اور مناصب؟
ماسٹر امیر حیدر: مدرسہ باب العلم مبارکپور جو سرزمین مبارکپور ضلع اعظم گڑھ پر سب سے پہلا قائم ہونے والا قدیم دینی مدرسہ ہے میں امیر حیدر ابن الحاج محمد یاسین مرحوم پورہ خواجہ مبارکپور اس مدرسہ کی کمیٹی انجمن حیدری مدرسہ باب العلم کا ۱۹۸۲ء سے ۱۹۸۴ء تک باقاعدہ منتظم وجنرل سکریٹری رہا ہوں،اس مدت کے علاوہ ۱۹۸۵ء سے ۱۹۸۷ء تک جناب جعفر علی ابن ممتاز علی صاحب مرحوم بکھری کی طرف سے بااختیار سکریٹری کے خدمات انجام دی ہیں۔اس کے علاوہ بھی کئی مذہبی انجمنوں،اداروں ،مدرسوں کا رکن رہاہوں۔
حوزہ نیوز ایجنسی: آپ کی ملازمت ؟
ماسٹر امیر حیدر:میں سرکاری امداد یافتہ ’’مولانا آزاد انٹر کالج ‘‘ انجان شہید ضلع اعظم گڑھ کا اس وقت ریتائرڈ لکچرر ہوں۔میں نے تقریباً ۴۰؍سال تک سال تک وہاں بحیثیت لکچررملازمت کی ہے ۔میری تقرری ۱۹۷۴ء میں ہوئی تھی اور ۲۰۱۴ءمیں ریٹائر ہواہوں۔
حوزہ نیوز ایجنسی: آپ حوزہ علمیہ مدرسہ باب العلم مبارکپور کے منتظم و جنرل سکریٹری اور ’’مولانا آزاد انٹر کالج‘‘ انجان شہید میں عصری تعلیم کے لیکچرر رہے ہیں کیا بتا سکتے ہیں کی کہ اس وقت دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کتنی ضروری ہے؟
ماسٹر امیر حیدر:مدینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بے حد ضروری ہے۔اس کی عملی مثال(آئیڈیا لوجی) اسلامی جمہوری ایران ہے جہاں سے اس وقت پوری دنیا میں کھلا ہو پیغام نشر ہو رہا ہے کہ جہاں صرف عصری تعلیم کی حکمرانی ہے وہاں مادی ہتھیاروں پر بھروسہ کیا جاتا ہے وہاں حقوق العباد (حقوق انسانی) کی پامالی بظاہر کوئی اہمیت نہیں رکھتی جیسے امریکہ جہاں مستضعفین کے ساتھ ایثار و ہمدردی کے جذبہ کا سراسر فقدان ہے ۔اورایران جہاں دینی اور عصری دونوں تعلیم کی ہماآہنگی ہےحقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی پر بھرپور بھروسہ کیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں فلسطینیوں کے ساتھ ایران کی کمک محتاج بیان نہیں۔حقوق انسانی کا احترام دنیا ایران سے سیکھے۔
حوزہ نیوز ایجنسی: آپ متعدد بار حج اور ایران و عراق و شام کی زیارات کا شرف حاصل کرچکے ہیں تو اس وقت ایران آنے کا کیا مقصد ہے؟
ماسٹر امیر حیدر: جی ۔یوں تو میں کئی بار حج و زیارات کے لئے مقدس سفر کرچکا ہوں ۔اس وقت میں اپنے ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کو لے کر آیا ہوں اولین مقصد زیارات عتبات عالیا ت ہے۔ضمناً زیارات کے ساتھ ایران میں مواقع ِتجارت کا جائزہ لینابھی ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی: کیا آپ کو تجارت سے بھی لگاؤ ہے؟
ماسٹر امیر حیدر: جی۔جینے کے لئے کمانا بھی تو اسلام کی نظر میں عبادت ہے۔کسب معاش تو ہرانسان کی ضرورت ہے۔اسلام کے زریں تعلیمات میں روشن ترین باب کسب معاش ہے یعنی محنت کے ذریعہ اپنا کماکرکے کھاؤ۔دوسرے کے سامنے ہاتھ مت پھیلاؤ ۔یہ بات صحیح ہے کہ پہلے زمانے میں مال کو برا سمجھا جاتا تھا ،توکل اور قناعت پسندی کا رواج عام تھا لیکن آج کے دور میں مال و دولت مسلمانوں کے لئے سب سے بڑی ضرورت ہے ۔اس لحاظ سے بھی کہ اگر مال نہ ہوگا تو خمس و زکوٰۃ و خیرات و صدقات کیونکر دیا جائے گا؟غریبو ں کی مدد کیسے کی جائے گی؟مدارس و مساجد و امام بارگاہوں کو کیسے تعمیر و آباد کیا جائے گا؟کذا و کذا۔سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ آج کے دور میں تعلیم بھی اتنی منہگی ہوگئی ہے کہ حصول علم سب کے بس کی بات نہیں کہ وہ اچھی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔اگر بالفرض کسی طرح کسی نے محنت و مشقت برداشت کرکے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کر لی ہے تو بغیر مال خرچ کئے ہوئے نہ اس کو مدرسوں میں تدریسی خدمات کا موقع ملتا ہے نہ اسکولوں اور کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ملازمت ملتی ہے۔اگر مال نہیں ہے تو چاہے کتنا بڑا صاحب ِ علم ہو اس کوسماج و معاشر میں ’’بے کار‘‘ سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ علم نافع کی اہمیت و عظمت اپنی جگہ مسلم ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی: کسب معاش کے سلسلہ میں میں آپ کا کیا خیال و نظریہ ہے؟
ماسٹر امیر حیدر: کسب معاش تو بہرحال ہر مذہب،ہر قوم اور ہر سماج و معاشرہ کی نظر میں ضروری اور اہم ہے ۔اور ہر ملک و ملت کا بنیادی مسئلہ ہے۔قرآن و احادیث میں رزق حلال کمانے کی بے پناہ ترغیب و تاکید وارد ہوئی ہیں۔ چنانچہ کسب معاش کی بہت سی صورتیں ہیںاور کسب معاش کی جوبھی جائز اور حلال صورت ہو اسے اختیار کرنے میں کوئی ننگ و عار محسوس نہیں کرنا چاہیئے ۔مگر اسلامی تعلیمات کے مطابق سب سے بہترو بابرکت وپر فضیلت ذریعہ ٔکسبِ معاش تجارت ہے۔حدیث میں وارد ہوا ہے کہ رزق کے دس حصے ہیں ،نو حصے صرف تجارت میں ہیں اور ایک حصہ میں دیگر تمام ذرائع شامل ہیں۔ہر مسلمان کو کسب معاش کے لئے اتنی محنت اور کوشش تو بہرحال کرنی چاہیئے کہ کہ قوم اور سماج میں عزت کی زندگی گزار سکیں ۔بہت زیادہ مال و دولت کی فراوانی اور لالچ کرنا بھی ضلالت و گمراہی کو دعوت دینا ہے۔توکل و قناعت پسندی اور میانہ روی و خودداری تو ہر حال میںاسلام کی نظر میں اوصاف حمیدہ اور خصائل پسندیدہ ہیں جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
حوزہ نیوز ایجنسی:ایران میں تجارت کی تلاش کیوں؟
ماسٹر امیر حیدر: کہتے ہیں کہ تجارت کی فضیلت کی ایک وجہ تاجر اور گاہک کے درمیان ربط وضبط ،باہمی یکجہتی و ہمدردی میں اضافہ بھی ہے۔اسلامی نجکاری(Islamic trade)قرآن واحادیث اور فقہی اصولوں کے مطابق داخلی اور بین الاقوامی تجارت کو کہا جاتا ہے۔اسلام میں تجارت پر زور دیا گیا ہے چاہے وہ علاقائی و ملکی پیمانہ پر ہو یا بین الاقوامی پیمانہ پر۔
اور ہم نے یہاں ایران میں تجارت کو واقعاً عبادت کی صورت میں دیکھا ہے ۔بڑے بڑے علماءروحانیین صاحبان عمامہ تجارت میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے ہیں اور کسب معاش کوپر افتخارروزگار تصور کرتے ہیں۔ایران سے ہمارا روحانی اور مذہبی رشتہ ہے۔یہاں ہمیں دین اور دنیا دونوں کی راہیں صاف اور آشکار نظر آتی ہیں۔
حوزہ نیوز ایجنسی:ایران اور ہندوستان میں آپ کن شعبوں میں تجارت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟
ماسٹر امیر حیدر: یوں تو تجارت کے لئے کہیں بھی کوئی بھی حد معین نہیں کی جاسکتی ۔ویسے آجکل ادویہ،زراعت،موٹر گاڑیوں کے پارٹس،ملبوسات،ریڈی مید کپڑے،انواع و اقسام کی معدنیات ،اشیائے خورد و نوش،ہوٹل ،ریسٹورینٹ وغیرہ کے شعبوں میں باہمی تعاون اور تجارت کے بہترین مواقع ہیں۔
حوزہ نیوز ایجنسی:الحاج ماسٹر امیر حیدر صاحب! ماشاء اللہ آپ مبارکپور کے سرکردہ شیعہ شخصیات میں سے نمایاں فرد ہیں تو آپ نے کوئی قومی و مذہبی خدمات بھی انجام دی ہیں جو قابل ذکر ہیں؟
ماسٹر امیر حیدر: جی ہاں ہاں ،ہم نے اپنے محلہ پورہ خواجہ مبارکپور میں ایک مسجد تھی جس میں شیعہ و سنی دونوں فرقے کے لوگ نماز پڑھتے تھے مگر سنی حضر ات نے اس پر اپنا قبضہ جمانا چاہا یہاں تک کہ کورٹ میں مقدمہ چلا ۔آخر میں ہماری کوششوں سے طرفین کے درمیان ایک صلح سمجھوتہ ہوا جس کے بعد ہم نے تصفیہ شدہ خالی زمین پر ایک مسجد بنام ’’مسجد ابو طالبؑ‘‘اور اسی سے بالکل ملحق ایک امام بارگاہ بنام ’’ ایوان ابو طالب ‘‘اپنے بڑے بیٹے الحاج اعجاز حیدر کربلائی کے زیر نگرانی اور تعاون و اشتراک سے تعمیر کرایا جہاں اس وقت باقاعدہ پیشنماز عالم دین کی اقتداء میں نماز با جماعت اور مجالس و محافل وغیرہ کا انعقاد ہوتا ہے۔ اوربچوں کے دینی تعلیم کے لئے باقاعدہ مکتب بھی برابر جاری ہے۔ابھی مسجد اور امام بارگاہ دونوں میں تعمیراتی کام جاری ہیں ،ہنوز بہت کام باقی ہیں ۔امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی توجہات و عنایات سے امید ہے کہ ان شاءاللہ تمام امور بخیروخوبی پایہ تکمیل کو پہونچیں گے۔
مسجد ابو طالب ؑ اور ایوان ابو طالب ؑ محلہ پورہ خواجہ مبارکپورسے متعلق تصاویر یہاں ملاحظہ کریں:
حوزہ نیوز ایجنسی:الحاج ماسٹر امیر حیدر صاحب ! آپ مبارکپور کے رہنے والے ہیں تو وہاں پر حجۃ الاسلام مولانا ابن حسن املوی واعظ صاحب بانی و سرپرست حسن اسلامک ریسرچ سینٹر املو مبارکپور کو بھی آپ جانتے ہونگے؟
ماسٹر امیر حیدر: جی کیوں نہیں جانوں گا حجۃ الاسلام الحاج مولانا ابن حسن املوی واعظ کربلائی صاحب میرے قابل احترام رشتہ دار بہنوئی ہیں وہ ہندوستان کے علاوہ امریکہ،لندن،افریقہ وغیرہ میں قابل قدر تبلیغی خدمات انجام دے چکے ہیں اور وہ آجکل عارضۂ قلب میں مبتلا ہونے کی وجہ سے ایک معروف عالمی تحقیقی ادارہ ’’انٹر نیشنل نور مائکرو فلم سینٹر‘‘ایران کلچر ہاؤس ،نئی دہلی سے منسلک رہ کر اپنے گھر ہی پر ہندوستان کی قدیم شیعہ دینی درسگاہوں (حوزات علمیہ) پر تاریخی اور تحقیقی کتابیں تالیف وتدوین کرنے کا گرانقدر قلمی کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ اور حجۃ الاسلام مولانا مسرور فیضی املوی قمی سلمہ (متعلم حوزہ علمیہ قم) میرے سگے بھانجے ہیں۔
حوزہ نیوز ایجنسی :آپ مبارکپور میں بنارسی ساڑیوں کے مشہور و معروف بڑے تاجر ہیںآپ اور کس چیز کی تجارت کرتے ہیں؟
ماسٹر امیر حیدر:جی ،اس وقت جبکہ میں ’’ مولانا آزاد انٹر کالج‘‘ انجان شہید کی سروس سے ریٹائرڈ ہوں تو اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر بنارسی ساڑیوں کی تجارت اور زمینوں کی خرید و فروخت کے بژنس میں مصروف و مشغول رہتا ہوں ۔ اور آپ کی دعاء سے اہل بیت علیہم السلام کے زیر ِلطف و عنایات مبارکپور اور اطراف واکناف میں اچھی خاصی عزت بھی ہے اور شہرت بھی۔
حوزہ نیوز ایجنسی: ماسٹر امیر حیدر صاحب !کیا آپ ہماری حوزہ نیوز ایجنسی (شعبہ اردو) کی نشریات اور خبریں ملاحظہ کرتے ہیں؟اگر ہاں ۔تو حوزہ نیو ز کے بارے میں آپ کے تاثرات کیا ہیں؟
ماسٹر امیر حیدر: جی ہاں میں حوزہ نیوز ایجنسی کی اردو نشریات اور خبریں برابر واٹس ایپ گروپ میں پر پڑھتا ہوں ۔ادارہ حوزہ نیوز ایجنسی صحافتی معیار پربالکل کھرا استوار ہے۔حوزات علمیہ،حالا ت علماء ومراجع ،قومی و مذہبی و علمی و ثقافتی عالمی و علاقائی تازہ ترین خبروں اور علمی و تحقیقی مضامین و مقالات اور انٹرویوز کا حسین گلدستہ ہوتا ہے ،عطر قرآن،تقویم حوزہ اور حدیث روز کا مستقل کالم حوزہ ینوز کی نشریات کے لئے سونے پر سہاگے کا کام کرتے ہیں ۔سب سے بڑی خوبی صحافت میں صداقت ہے جو حوزہ نیوز کی امتیازی شان ہے۔
حوزہ نیوز ایجنسی:ماسٹر امیر حیدر صاحب !آپ کے ساتھ بات چیت کرکے بہت اچھا لگا ،کافی عمدہ علمی و مذہبی اور تجاری معلومات پیش کیں ۔خدا آپ کو صحت و سلامتی کے ساتھ طول عمر عطا کرے اور آپ کے رزق و رزی میں برکت عطاکرے۔نیز جملہ مومنین و مومنات کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے ۔ آمین۔خدا حافظ
ماسٹر امیر حیدر:ایک بار پھر آپ کا تہ دل سے شکریہ۔فی امان اللہ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔