۱۳ مهر ۱۴۰۳ |۳۰ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Oct 4, 2024
پارا چنار

حوزہ/حالیہ دنوں میں ایران کے اسرائیل پر حملے نے ماحول کو کافی گرم کردیا ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ اسرائیل جیسے آمر کو غزہ پر ظلم کرنے کا جواب بھرپور ملا ہے، ایسی ہی ایک استکباری طاقتوں کا شاخسانہ پارا چنار کی صورت میں ہمارے ملک پاکستان کی سرزمین پر موجود ہے۔

تحریر: سیدہ نصرت نقوی

حوزہ نیوز ایجنسی |

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں

تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے

حالیہ دنوں میں ایران کے اسرائیل پر حملے نے ماحول کو کافی گرم کردیا ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ اسرائیل جیسے آمر کو غزہ پر ظلم کرنے کا جواب بھرپور ملا ہے، ایسی ہی ایک استکباری طاقتوں کا شاخسانہ پارا چنار کی صورت میں ہمارے ملک پاکستان کی سرزمین پر موجود ہے۔

پارا چنار میں شیعہ و سنی بہت پہلے سے آباد ہیں۔لیکن جرنل ضیاء جو کہ خود امریکہ کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی تھے ان کے دور میں تکفیریت کا جو بیج بویا گیا اس کے اثرات وقت کیساتھ ساتھ تناور درخت بنتے گئے۔

پارا چنار میں ابھی بھی کافی امن پسند سنی ہیں، لیکن کچھ شرپسند لوگوں کیوجہ سے حالات خراب ہوتے ہیں اس کے علاوہ جب جنگ ہوتی ہے تو افغانستان سے طالبان وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں سے لوگ ان کی مدد کو آجاتے ہیں۔

شیعوں کا اہم مسلہ یہ ہے کہ کوئی محفوظ راستہ نہیں ہے، چاروں طرف سے تکفیریوں کا گھیرا تنگ ہے۔

پارا چنار تین طرف افغانستان سے گھرا ہوا ہے اور چوتھی طرف پاکستان سے ملتا ہے، وہاں پر 150 کلومیٹر کے فاصلے پہ تکفیریوں کا قبضہ ہے۔

ہنگو، کوہاٹ اور اورکزئی شیعہ علاقے ہیں لیکن وہ پارا چنار کی مدد نہیں کر پاتے کیونکہ دوسرے علاقوں سے ان کا 150 کلومیٹر کا کافی طویل فاصلہ ہے۔

پارا چنار میں تنازعات کی چند بنیادی وجوہات ہیں:

1۔ مذہبی منافرت

2۔ زمینی تنازعات

3۔ سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال (اہل بیت علیہ السلام، صحابہ اور امہات المؤمنین کی شان میں گستاخیاں)

4۔ انتظامیہ بشمول فورسز کا غیر سنجیدہ اور جانبدارانہ رویہ۔

ان کی تفصیل کچھ یوں ہے !

1 مذہبی منافرت :

پارا چنار میں تمام مسائل کی اصل بنیاد مذہبی منافرت ہے۔ بے لگام تکفیری دہشتگرد اور سرکاری پروٹوکول میں گھومنے پھرنے والے نام نہاد مشیران جس میں سر فہرست عید نظر منگل اور ملک سیف اللہ ہے۔ پارا چنار میں ہر جنگ کا آغاز تکفیریوں کی طرف سے ہوتا ہے ۔ سر عام شیعوں کی تحقیر اور منافرت کی فضا قائم کرنا کالعدم سپاہ صحابہ کے سرگرم کار کنان کے تمام تنازعات کا بنیادی سبب ہے۔

2۔ زمینی تنازعات:

دوسری بڑی وجہ تمام تنازعات کی وہ زمینوں کی غیر منصفانہ اور جانبدارانہ تقسیم ہے، اہل تشیع کے کچھ علاقوں پر غیر قانونی طور پر تکفیری دہشتگرد قابض ہیں ۔ جس کیلئے کمشنر کوہاٹ کی سربراہی میں کمیشن بن چکا ہے، لیکن وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرنے سے قاصر ہیں۔

3۔ سوشل میڈیا کا غیر ذمہ دارانہ استعمال:

تمام تنازعات میں سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ استعمال کا بھی کافی عمل دخل رہا ہے، کیونکہ سوشل میڈیا پر اہل بیت علیہ السلام، صحابہ اور امہات المؤمنین کی شان میں گستاخیوں کی لمبی فہرست ہے ۔ دوسرے فرقے خاص کر اہل سنت کی طرف سے اہل تشیع کے مقدسات کی توہین بھی کافی جنگوں کا سبب بن چکی ہے۔

4۔ اداروں کا غیر سنجیدہ اور متعصبانہ رویہ:

کرم کے تمام مسائل کی اصل بنیاد ریاست کا متعصبانہ اور جانبدارانہ رویہ ہے

گستاخیوں کی ایک لمبی فہرست ہونے کے باوجود کسی کو سزا نہیں دی جاتی ہے۔

کالعدم سپاہ صحابہ اور طالبان کے سرگرم ارکان کو سرکاری پروٹوکول اور شیعوں کے قاتل اور دہشتگردوں کو کھلی چھوٹ سرکاری پراپرٹی روڈ پر ہفتوں پر محیط دہشتگردوں کا راج رہتا ہے۔

کافی کافی دن محاصرہ رہتا ہے جس کی وجہ سے وہاں کے لوگ ابتدائی طبی ضرورتوں و دیگر اہم چیزوں سے دور ہیں۔

میرا مطالبہ ہے اپنے تمام قارئین دوستوں سے کہ خدارا ملک پاکستان کے اس مسلئے کو سنجیدگی سے حل کیجیے۔

یاد رکھیں جب قلم اور زبان بکتے ہیں تو تاریخ مسخ، زبانیں مردہ اور قومیں برباد ہوتیں ہیں۔

تمام صحافی اپنے قلم کا حق ادا کریں اور حکومت وقت کو متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لے۔ یہ جو امریکی ٹکڑوں پہ پلنے والے کرسیوں پہ بیٹھے ہیں یہ اسوقت سے ڈریں جب قہر خداوندی ان پہ نازل ہو۔

تاریخ انقلاب شہیدوں کے خون سے لکھی جاتی ہے۔ اور شیعہ قوم کسی شہادت سے نہیں ڈرتی ھم تو چودہ سو صدیوں سے لاشیں اٹھا رہے ہیں اگر حکومت کو غیرت نہیں آتی تو تختہ پلٹنے کے لئے ہمیں کوئی روک نہیں سکتا ہے۔ متوجہ ہوں۔ اپنے اپنے قلم سے حق اور سچ کہیں ، ورنہ آپکا یہی قلم بوقت ظہور امام زمان (عج) کی تلوار کے مترادف ہوگا ۔۔۔ آپ کے سر ہوگے اور امام (عج) کی تلوار ۔۔ پارا چنار کو غزہ بننے سے بچا لیں ۔۔ روز حشر کیا جواب دیں گے؟؟؟ کیا اس دن بھی یہ استکبار امریکہ کے ہاتھوں بکی ہوئ حکومت اور سیکیورٹی آپ کی جان بخشی کروائیں گی؟؟؟ اپنے قلم کی طاقت سے حکومت کے ایوانوں کو ہلادیں۔۔ جب ظلم حد سے بڑھ جائے تو قلم کی روشنائی خون بن جاتی ہے جسے قلم میں ڈال کہ استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد!!!

والسّلام

تبصرہ ارسال

You are replying to: .