حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، پارا چنار پاکستان کے حالات اور حکمرانوں کی بے حسی" کے موضوع پر ایک آنلائن پروگرام وائس آف نیشن کے زیر اہتمام منعقد ہوا، جس میں ایم ڈبلیو ایم شعبۂ قم کے سیکریٹری جنرل مولانا سید شیدا جعفری نے گفتگو کی۔
واضع رہے پارا چنار پچھلے انیس دنوں سے محاصرے میں ہے اور وہاں کی سڑکیں بند ہیں، جس کی وجہ سے اشیائے خورد و نوش کا قحط پڑ گیا ہے اور لوگ اسپتالوں کی بندش کی وجہ سے اپنی جانیں گنوا رہے ہیں۔
اس پروگرام کے میزبان جناب اقبال حسن تھے، پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام الٰہی سے ہوا، جس کی سعادت قاری منظور حیدری نے حاصل کی۔
پارا چنار کے متعلق منعقدہ اس پروگرام کے پہلے مقرر علامہ اخلاق حسین شریعتی نے کہا کہ پارا چنار کے مسائل کے مختلف اسباب ہیں، جن میں تحریکِ طالبان پاکستان، تکفیری ٹولہ اور دوسری کالعدم تنظیموں کے سیاہ کرتوت بھی شامل ہیں، ان میں سے ایک مسئلہ زمینوں کی تقسیم کا مسئلہ بھی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انیس روزہ محاصرے کے باجود ہمارے لوگوں کے ارادے مضبوط ہیں، انہیں مشکلات کا سامنا ضرور ہے، لیکن وہ ہر قسم کے محاصرے کو برداشت کر سکتے ہیں، ہمارے لوگوں کے پاس دو آپشنز ہیں؛ یا مرنا ہے یا عزت سے جینا ہے۔
علامہ اخلاق نے کہا کہ اس وقت شیعہ اور سنی دونوں کیلئے فتنہء خوارج کا مسئلہ درپیش ہے۔ شیعوں کی طرف سے انجمنِ حسینی اور سنیوں کی طرف سے انجمنِ فاروقیہ کا کردار اہم ہے، دونوں کو چاہیے کہ باہم امن کی بحالی کیلئے اپنے اپنے قومی پلیٹ فارمز ہر اعتماد کرنا چاہیے، لیکن مدمقابل انجمنِ فاروقیہ پر بعض تکفیریوں کا اعتماد نہیں ہے، جس کی وجہ سے معاملات حل کی طرف نہیں بڑھ رہے۔
اس آنلائن پروگرام سے مجلسِ وحدت مسلمین پاکستان شعبۂ قم کے سیکریٹری جنرل سید شیدا جعفری صاحب نے نیز گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ پارا چنار کے مسائل اور وہاں کے تنازعات کی باقاعدہ ایک طویل تاریخ ہے۔ بدقسمتی سے وہاں پر ایک تیسری قوت ہے جو شیعہ سنی دونوں کو باہم لڑا رہی ہے، جس کی وجہ سے گاہے بگاہے شیعہ اور سنی فسادات جنم لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر تناسب دیکھیں تو پاکستان کے اندر جتنے اضلاع ہیں ان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے لوگ، کرم ایجنسی کے ہیں۔ یہ اسلام آباد سے زیادہ پڑھے لکھے لوگوں کا علاقہ ہے۔
مولانا سید شیدا جعفری نے کہا کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب تنازعات اور معاملات کی حساسیت بڑھ گئی ہے اور مسائل بہت تیزی سے پھیل رہے ہیں۔
آخر میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کے تمام بڑے سیاسی و مذہبی لوگوں کو اس مسئلے کی حساسیت کا علم ہونا چاہیے اور اس کے حل کیلئے بروقت اور مناسب قدم اٹھانا چاہیے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ کرم ایجنسی کے شیعہ سنی عوام امن چاہتے ہیں، لیکن ایک ٹولہ ہے جو حالات کو جان بوجھ کر خراب کرتا ہے اور اس کی پشت پر ایک تیسری قوت ہے جو نہیں چاہتی ہے کہ کرم ایجنسی میں امن و امان کی فضا قائم ہو، لہٰذا پورے پاکستان کے سنجیدہ اور با اثر افراد سے گزارش ہے کہ وہ کردار ادا کریں اور امن کے قیام کیلئے کوششیں تیز کریں۔
آخر میں شرکاء کے سولات کے جوابات بھی دئیے گئے اور پروگرام کے میزبان اقبال حسن نے تمام شرکاء خاص طور پر مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔