حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،نائب امیر جماعت اسلامی پاکستان اور سیکرٹری جنرل ملی یکجہتی کونسل لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ جماعت اسلامی نے 26 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے لیے سینئر وکلا اور آئینی ماہرین کا پینل تشکیل دے دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ آئین سے متصادم قوانین و ترامیم کو ختم کرے۔ 27 ویں ترمیم پر مختلف آرا حکومت کی جانب سے سرکاری فرسٹریشن کی عکاسی کرتی ہیں۔ لیاقت بلوچ نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے گزشتہ 250 دنوں میں بیرونی دوروں، خوش کن اعلانات، فرضی نمائشی دعووں اور بیرونی سرمایہ کاری کے اعلانات کے سوا کچھ نہیں کیا۔ عملاً ملک میں مہنگائی، بیروزگاری، اور پٹرول، بجلی، گیس کی بڑھتی قیمتوں اور ناقابل برداشت ٹیکسز کا بوجھ عوام کے لیے موت کا پروانہ بن چکا ہے۔
لیاقت بلوچ نے وضاحت کی کہ عدلیہ کی آزادی، وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم، اور انتظامی نظام چلانا آئین کا بنیادی اور لازمی ڈھانچہ ہے۔ بدنیتی پر مبنی اور زبردستی کی مشکوک اکثریت سے آئینی ترامیم کے ذریعے آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم بدنیتی پر مبنی ہے، اس میں نقائص موجود ہیں، اور یہ عدلیہ کی تقسیم اور آزادی کے لیے زہر قاتل ہے۔ 26 ویں آئینی ترمیم کی خرابیوں کو نئی قانون سازی یا آئینی ترمیم کے ذریعے دور کرنے کی کوشش آئین کو مزید متنازعہ بنانے کے مترادف ہے۔ جماعت اسلامی 26 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے سینئر وکلا اور آئینی ماہرین پر مشتمل پینل تشکیل دے دیا گیا ہے۔
لیاقت بلوچ نے غزہ اور لبنان پر اسرائیلی صیہونی بمباری اور بے گناہ انسانوں کے قتل عام کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ اور عالمِ اسلام کی قیادت کیا غزہ کے آخری فرد کی شہادت اور آخری عمارت کی مسماری کے انتظار میں ہیں؟ عالمِ اسلام کو اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اسرائیلی صیہونی انسان کشی کی جنگ غزہ سے فلسطین کے دیگر علاقوں اور ایران، شام، لبنان اور یمن کی طرف توسیع پا چکی ہے۔ عالمِ اسلام کی قیادت کو اس مسلم کشی پر مبنی جنگ کے خاتمے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں، ورنہ مزید تاخیر پورے عالمِ اسلام کے لیے مزید تباہی، رسوائی اور غلامی کا باعث بنے گی۔ عالمی ادارے کیا آخری فلسطینی کی شہادت کا منتظر ہیں؟ اقوام متحدہ اور او آئی سی کیا غزہ میں آخری عمارت کی مسماری کے منتظر ہیں؟