حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امام خمینیؒ تعلیمی و تحقیقی ادارے کے رکن حجت الاسلام والمسلمین علی مصباح یزدی نے کہا ہے کہ انسانیت کی ہدایت اور فکری روشنی دین کے علمبردار علماء کی ذمہ داری ہے، اور مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بہجتؒ ان عظیم علماء میں سے تھے جو معارفِ الٰہی کے عالم اور برجستہ فقیہ تھے۔
یہ بات انہوں نے بدھ کی شب فومن شہر کی جامع مسجد میں منعقدہ حضرت آیت اللہ بہجتؒ کی سولہویں برسی اور شہداء طلباء و علماء کی یاد میں منعقدہ مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے کہا کہ تاریخِ اسلام میں بے شمار جلیل القدر علماء گزرے ہیں جنہوں نے انسانیت کو بیش بہا خدمات پیش کیں، مگر بعض شخصیات کا خلا ایسا ہوتا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ روایات کی رو سے جب کوئی بڑا عالم دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو ایک ایسا خلاء جنم لیتا ہے جو قیامت تک باقی رہتا ہے، کیونکہ ایسے علما کی قدر و منزلت اور ان کا کردار انسانی ہدایت کے عظیم فریضے سے جڑا ہوتا ہے۔
انہوں نے وضاحت کی کہ انسان کی تخلیق کا مقصد یہ ہے کہ وہ اپنی ہر سانس اور ہر قدم کے ساتھ خدا کی طرف قریب تر ہو، اور یہ قربِ الٰہی اسی وقت ممکن ہے جب انسان اس مختصر دنیاوی زندگی میں رشد و کمال کے راستے پر گامزن ہو۔
حجت الاسلام مصباح یزدی نے کہا کہ انسان کے کمال کے سفر میں رہنمائی کے لیے ایک راہ شناس کا ہونا ضروری ہے، اور یہ راہ شناس انبیاء، اولیاء اور علما ہوتے ہیں۔ ہر عالم اپنے دائرہ اثر میں ایک خلاء کو پر کرتا ہے، لیکن جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے تو اس کا خلا باقی رہتا ہے۔
انہوں نے آیت اللہ بہجتؒ کی علمی و معنوی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: آیت اللہ بہجتؒ ایک ایسے فقیہ اور عالمِ ربانی تھے جنہوں نے اپنی با برکت زندگی کے دوران لوگوں کی ہدایت و تربیت کا فریضہ انجام دیا، اور ان کا علم و تقویٰ آج بھی امت کے لیے مشعل راہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ علماء دین کا فریضہ صرف تعلیم نہیں بلکہ ان فکری اور عقیدتی حملوں کا جواب دینا بھی ہے جو شیطانی قوتیں وقتاً فوقتاً انسانیت پر وارد کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء خصوصاً فقہاء کو دشمن کی طرف سے شدید مخالفتوں کا سامنا رہتا ہے۔
حجت الاسلام مصباح یزدی نے انقلاب اسلامی ایران کو عصر حاضر کی عظیم نعمت قرار دیتے ہوئے کہا کہ امام خمینیؒ کی قیادت اور ملتِ مؤمن کی استقامت نے دین و دینداری کو دوبارہ زندہ کیا، جسے ماضی میں فراموشی کی نذر کیا جا رہا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج بھی انقلاب دشمن عناصر کی سازشوں اور فکری حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ سخت جنگ، ثقافتی یلغار، اسلام کو بدنام کرنا اور عوام کے اعتقادات کو متزلزل کرنا ان سازشوں کی مختلف صورتیں ہیں۔ ایسے حالات میں روحانیت کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ سنگین اور حساس ہو چکی ہے۔
اپنے خطاب کے اختتام پر انہوں نے تاکید کی کہ جهادِ تبیین یعنی دین کی صحیح اور واضح تشریح آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے، اور اسلامی معاشرے کی رہنمائی کسی مخصوص جغرافیے تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کی ہدایت علماء کی عالمی ذمہ داری ہے۔
انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ اگر آج ہم شہداء کے خون، باشعور قوم اور رہبر معظم کی قیادت کی بدولت اسلامی نظام میں سانس لے رہے ہیں تو لازم ہے کہ اس نعمت کو دینی معارف کے پھیلاؤ اور شعور کی بیداری کے لیے بھرپور طور پر استعمال کریں۔









آپ کا تبصرہ