حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مہدویت کے جھوٹے دعوے، باب مہدویت کے اہم ترین خطرات میں سے ایک ہے، تاریخ غیبتِ امام مہدی علیہالسلام میں متعدد افراد نے جھوٹی نسبتیں گڑھ کر امامؑ سے خصوصی رابطہ یا نیابت کا دعویٰ کیا۔
امام زمانہ (عج) نے اپنی آخری توقیع میں اپنے چوتھے نائب، علی بن محمد سمری سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «یَا عَلِیَّ بْنَ مُحَمَّدٍ اَلسَّمُرِیَّ أَعْظَمَ اَللَّهُ أَجْرَ إِخْوَانِکَ فِیکَ فَإِنَّکَ مَیِّتٌ مَا بَیْنَکَ وَ بَیْنَ سِتَّةِ أَیَّامٍ فَاجْمَعْ أَمْرَکَ وَ لاَ تُوصِ إِلَی أَحَدٍ یَقُومُ مَقَامَکَ بَعْدَ وَفَاتِکَ فَقَدْ وَقَعَتِ اَلْغَیْبَةُ اَلثَّانِیَةُ فَلاَ ظُهُورَ إِلاَّ بَعْدَ إِذْنِ اَللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ ذَلِکَ بَعْدَ طُولِ اَلْأَمَدِ وَ قَسْوَةِ اَلْقُلُوبِ وَ اِمْتِلاَءِ اَلْأَرْضِ جَوْراً وَ سَیَأْتِی شِیعَتِی مَنْ یَدَّعِی اَلْمُشَاهَدَةَ أَلاَ فَمَنِ اِدَّعَی اَلْمُشَاهَدَةَ قَبْلَ خُرُوجِ اَلسُّفْیَانِیِّ وَ اَلصَّیْحَةِ فَهُوَ کَاذِبٌ مُفْتَرٍ.»
(کمالالدین، ج ۲، ص ۵۱۶)
ترجمہ:
اے علی بن محمد سمری! اللہ تمہارے بارے میں تمہارے بھائیوں کو صبر دے۔ تم چھ دن کے اندر اس دنیا سے چلے جاؤ گے۔ اپنا کام سمیٹ لو اور اپنے بعد کسی کو اپنا جانشین مقرر نہ کرو۔ کیونکہ اب غیبتِ کبریٰ واقع ہو گئی ہے، اور اب ظہور صرف اللہ کے حکم سے ہوگا، اور وہ ایک طویل مدت کے بعد، دلوں کی سختی اور زمین کے ظلم سے بھر جانے کے بعد ہوگا۔ میری امت میں کچھ لوگ ایسے آئیں گے جو میری ملاقات (مشاہدہ) کا دعویٰ کریں گے۔ سن لو! جو شخص سفیانی کے خروج اور آسمانی صیحہ سے پہلے مشاہدہ کا دعویٰ کرے، وہ جھوٹا ہے۔
یہ توقیع، جھوٹے نیابت و ملاقات کے جھوٹے دعوے کرنے والوں کی ہر دلیل کو باطل کر دیتی ہے۔ اس کے بعد ہر شیعہ کی شرعی و عقلی ذمہ داری ہے کہ ایسے دعویٰ کرنے والوں کو رد کرے، ان کے اثرات کا سد باب کرے اور ان کے دھوکے میں نہ آئے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض دھوکے باز افراد نے نہ صرف نیابت کا دعویٰ کیا، بلکہ مہدویت کے جھوٹے دعوے بھی کیے، حتیٰ کہ نئے گمراہ کن فرقے بھی بنا لیے جنہوں نے امت کو گمراہی اور استعمار کی آغوش میں دھکیلا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان میں سے اکثر فرقے بیرونی طاقتوں اور نوآبادیاتی قوتوں کی پشت پناہی سے وجود میں آئے۔
یہ بھی واضح ہے کہ اس قسم کے دعوے کرنے والوں پر اعتماد کرنے کی بنیاد، عوام میں جہالت، معرفتِ امامؑ کی کمی اور جلد بازی میں جذباتی وابستگی ہے۔
اگر شوقِ دیدارِ امامؑ، بصیرت اور معرفت سے خالی ہو جائے تو انسان فریب خوردہ بن جاتا ہے۔ اسی لیے امام شناسی، توقیعات، اور علما کے ذریعے ہدایت یافتہ رہنا، ہر منتظرِ حقیقی کی بنیادی ذمہ داری ہے۔
لہذٰا، ہر شیعہ کو چاہیے کہ انحرافی دعوؤں سے خبردار رہے، معرفتِ مهدویت کے خالص معارف سے مسلح ہو اور راہِ ہدایت میں علمائے ربانی کی رہبری کو قبول کرے۔
جاری۔۔۔
حوالہ: کتاب "نگین آفرینش"









آپ کا تبصرہ