تحریر: عبد الرؤف قادری (اہل سنت شہری، راولاکوٹ)
حوزہ نیوز ایجنسی| کنور واقعہ ایک حساس لمحہ تھا، جس نے ریاست جموں و کشمیر کو ایک بڑے بحران کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مہم، یک طرفہ بیانیہ، اور پھر ایک عالم دین کے خلاف فی الفور ایف آئی آر نے اس تاثر کو مزید گہرا کیا کہ معاملے کو جانچنے کی بجائے دباؤ میں آ کر ایک خاص کمیونٹی کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔
مگر حیرت انگیز طور پر جس تدبر، صبر، اور سلیقے سے ملت جعفریہ نے اس پورے معاملے کو سنبھالا، وہ نہ صرف قابلِ تحسین ہے بلکہ ایک مثالی حکمت عملی کے طور پر تاریخ کا حصہ بن گیا۔ جب کچھ شدت پسند عناصر ریاست کو ایک اور سانحہ سیالکوٹ یا جلال پور کی طرف دھکیل رہے تھے، تب ملت جعفریہ کی قیادت، نوجوانوں اور علماء نے تحمل و تدبر کا راستہ اپنایا۔ انہوں نے جذبات کو قانون پر قربان نہیں ہونے دیا۔
یہ کہنا مبالغہ نہیں کہ اگر ملت جعفریہ کی قیادت میں وہ فہم و فراست نہ ہوتی، تو آج ریاست فرقہ واریت، جلاؤ گھیراؤ، اور انتشار کی آگ میں جھلس چکی ہوتی۔
لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ انتظامیہ مکمل طور پر دباؤ کا شکار نظر آئی۔ بغیر کسی شفاف تحقیقات کے، محض سوشل پریشر کی بنیاد پر کارروائی کی گئی۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ: ریاستی اداروں کے اندر چھپے ہوئے وہ متعصب عناصر جو بار بار فتنہ پروری کو ہوا دیتے ہیں، ان کا احتساب کیا جائے۔
ایسے افسران اور اہلکاروں کی چھان بین ہو، جو اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کر کے ریاست کو تصادم کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ حکومت اور عدلیہ اس معاملے کا غیر جانبدارانہ نوٹس لے کر انصاف کو یقینی بنائیں۔
آخر میں، میں ایک سنی شہری ہونے کے ناطے ملت جعفریہ کے بردبار موقف اور ان کی دانشمندانہ قیادت کو سلام پیش کرتا ہوں، جنہوں نے پوری ریاست کو ایک بڑی تباہی سے بچا لیا۔
عوامی مؤقف! انصاف کا وقت آن پہنچا ہے! کنور واقعہ میں جس طرح ایک مقدس قرآنی آیت کی تلاوت کو بہانہ بنا کر ایک عالم دین کو نشانہ بنایا گیا، وہ نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ ریاستی بے حسی اور انتظامی کمزوری کا کھلا ثبوت ہے۔
کیا کبھی چوری کے الزام میں قتل کا مقدمہ سنا؟ کیا کبھی قرآن پڑھنے پر توہین کا مقدمہ بنا؟ کیا ریاست قانون کی نہیں، جھتوں کی غلام بن گئی ہے؟
جب ریاست دباؤ میں آ کر جلد بازی میں یکطرفہ کارروائی کرتی ہے اور شدت پسندوں کے ہاتھوں بلیک میل ہو جاتی ہے، تو سوال اٹھانا لازم ہو جاتا ہے: کیا اب قانون، فتنے پر خاموش رہنے والوں کا غلام بن چکا ہے؟
اب دیکھنا یہ ہے… کیا اس غلط کارروائی کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لایا جائے گا؟ کیا اس عوامی پریشر پر مبنی فیصلے کا محاسبہ ہوگا؟ کیا ان شدت پسندوں کو بھی انصاف کے دائرے میں لایا جائے گا جنہوں نے ایک آیت کے پڑھنے پر طوفان برپا کیا اور ریاست کو جنگ و جدال کی طرف دھکیلنے کی سازش کی؟
ہمارا مطالبہ ہے: ان انتظامی عناصر، مذہبی شرپسندوں، اور فتنے کے علمبرداروں کا احتساب کیا جائے جو ریاست میں خوارج کے ایجنڈے کو تقویت دے رہے ہیں!"
"وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ" (جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو، تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں!)
ملت جعفریہ کا صبر، حکمت اور سُدھ بدھ نے ریاست کو بچا لیا، مگر اب انصاف کا تقاضا ہے کہ غلط کو غلط کہا جائے، اور فتنہ پروروں کو لگام دی جائے!









آپ کا تبصرہ