حوزہ نیوز ایجنسی کے مطابق، ایثار کی وہ معصوم تصویر، ظلمت کے زندان میں اجالا بکھیرنے والی عظیم شہزادی حضرت سکینہ بنت الحسینؑ کی یاد میں مدرسہ بنت الہدیٰ، ہریانہ کے زیرِ اہتمام ۵ تا ۹ صفر المظفر ۱۴۴۷ھ روزانہ ۳ بجے سہ پہر، حیدریہ ہال میں مسلسل پانچ روز تک بصیرت افروز، اشک بار مجالسِ عزا کا انعقاد کیا گیا۔ ان مجالس میں علم، گریہ، شعور اور عشقِ اہلِ بیتؑ کا حسین امتزاج دیکھنے کو ملا۔
ان مجالس کی خاص بات ضبطی چھپرہ اور سید چھپرہ سے تشریف لانے والی بزرگ خواتین کی مرثیہ خوانی تھی، جس نے روحانی اثر انگیزی کو دوچند کر دیا، جب کہ مدرسہ کی باصلاحیت طالبات نے اپنی تلاوت، خطابت اور نظم و ضبط سے ہر دن کو ایک نیا جوش و جذبہ عطا کیا۔

پہلی مجلس – ۵ صفر المظفر
مجلس کا آغاز تلاوتِ قرآنِ مجید سے ہوا، جس کا شرف سیدہ شفا بتول نے خوش الحانی سے حاصل کیا۔
بعد ازاں محترمہ سیدہ فاطمہ بتول صاحبہ (ضبطی چھپرہ) نے مرثیہ خوانی کے ذریعے قلوب کو اشکبار کیا۔
مدرسہ کی طالبہ سیدہ ممتاز فاطمہ نے اپنے خطاب میں علم کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:
> "علم وہ نور ہے جو انسان کو حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے اعلیٰ مقام تک پہنچاتا ہے۔ یہی علم انسان کو بصیرت عطا کرتا ہے اور کردار میں جِلا پیدا کرتا ہے۔"
انہوں نے حضرت سکینہؑ کے مصائب کو نہایت مؤثر انداز میں پیش کیا: "کربلا کی شام میں ایک معصوم بچی کا گریہ، قیامت تک یزیدیت کی رسوائی کا اعلان ہے۔" مجلس کے اختتام پر نوحہ و ماتم کا پراثر منظر دیکھنے کو ملا۔
دوسری مجلس – ۶ صفر المظفر
تلاوتِ کلامِ مجید کی سعادت سیدہ کساء بتول نے حاصل کی، اور مرثیہ خوانی محترمہ سیدہ تنظیم فاطمہ (سید چھپرہ) نے سوز و گداز کے ساتھ پیش کی۔
طالبہ سیدہ نیلم زہرا نے اپنے بیان میں نماز کی روحانی بلندی بیان کرتے ہوئے کہا: نماز مومن کی معراج ہے، جو دل کو اطمینان، روح کو پاکیزگی اور زندگی کو بندگی کی راہ دکھاتی ہے۔" مصائبِ سکینہؑ کے ذکر میں فرمایا:
جنابِ سکینہؑ کے اشکوں میں وہ صدا تھی جس نے یزیدی دربار کو لرزا دیا؛ وہ صدا آج بھی بیدار ضمیر انسانوں کو جگاتی ہے۔ بعد از مجلس نوحہ و ماتم کا سلسلہ جاری رہا۔

تیسری مجلس – ۷ صفر المظفر
تلاوتِ قرآن کی سعادت شمائلہ بتول نے حاصل کی، اور مرثیہ محترمہ سیدہ نعیم فاطمہ (سید چھپرہ) نے پیش کیا۔ مدرسہ کی طالبہ سیدہ مصباح بتول نے کربلا کے پیغام پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: کربلا وہ معرکہ ہے جہاں سر کٹ گئے، مگر حق نہ جھکا۔ یہ قربانی، وفا، اور استقامت کی وہ داستان ہے جو قیامت تک انسانیت کو بیدار کرتی رہے گی۔ کربلا وہ آئینہ ہے جس میں سکینہؑ کی خاموشی، کوفہ و شام کی بےحسی کو بےنقاب کرتی ہے۔" مجلس کے اختتام پر نوحہ و ماتم کا پُراثر منظر جاری رہا۔
چوتھی مجلس – ۸ صفر المظفر
تلاوتِ قرآن سیدہ فائزہ بتول نے کی، جب کہ محترمہ سیدہ وسیم فاطمہ (ضبطی چھپرہ) نے مرثیہ پڑھا۔
طالبہ سیدہ آفریدہ بتول نے خطاب میں ایرانی حافظاتِ قرآن کی مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا: حفظِ قرآن صرف یادداشت کا نام نہیں، بلکہ عشقِ قرآن اور عملِ قرآنی کی علامت ہے۔ ہمیں قرآن سے جُڑ کر اپنی زندگی، سوچ، اور معاشرے کو قرآن کے سانچے میں ڈھالنا ہوگا، یہی اصل بندگی ہے۔ مصائبِ سکینہؑ کے بیان پر پورا مجمع گریہ و زاری میں ڈوبا رہا۔

پانچویں مجلس (دو نشستیں) – ۹ صفر المظفر دن کی مجلس:
تلاوت جانشین فاطمہ نے کی، اور مرثیہ محترمہ سیدہ تحریر فاطمہ (سید چھپرہ) نے پیش کیا۔ خطیبہ اہلبیت محترمہ خواہر سیدہ علی فاطمہ نقوی صاحبہ معلمہ مدرسہ بنت الہدیٰ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ"اربعین کی مشی فقط قدموں کا سفر نہیں، یہ عشقِ حسینؑ کی خاموش زبان ہے، جو ہر قدم پر صدائے لبیک یا حسینؑ بلند کرتی ہے۔ جب زائر خاکِ نجف سے کربلا کی طرف بڑھتا ہے، تو گویا روح، وفا اور عقیدت کے زمزم میں نہا کر حسینیت کی معراج کو چھو رہی ہوتی ہے۔ شہزادی سکینہؑ علم، صبر، اور غیرت کا امتزاج ہیں۔ زندانِ شام کو انہوں نے مدرسہ میں بدل دیا، اور ظلم کے سائے میں علم کا چراغ روشن رکھا۔
شب کی مجلس (اختتامی نشست – شب ۹ صفر)
تلاوت کریمہ بتول نے کی، اور مرثیہ محترمہ سیدہ وسیم زہرا (ضبطی چھپرہ) نے پیش کیا۔ ان کے سوز و درد بھرے اشعار نے مجلس کو گریہ و آہوں سے بھر دیا۔
اختتامی خطاب مدرسہ کی طالبہ سیدہ راضیہ بتول نے کیا، جس میں فکری بلندی نمایاں تھی: شہزادی سکینہؑ کی زبانِ حال ہمیں دعوت دیتی ہے کہ اگر حسینؑ سے محبت ہے تو سچ کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ۔"آج کا میڈیا اگر آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای جیسے ولیِ فقیہ پر تہمت لگاتا ہے، تو یہ دین و انسانیت دونوں کی توہین ہے۔ ہم اعلان کرتے ہیں کہ رہبرِ معظم، سکینہ بنت الحسینؑ کے اُس پیغام کے محافظ ہیں جو باطل کے خلاف مزاحمت کا استعارہ ہے۔
بعد از مصائب، "یا سکینہؑ" کی صداؤں میں شبیہ تابوت برآمد ہوا، اور ماتمی فضا مزید گہرائی اختیار کر گئی۔
ان مجالس میں نظامت کی خدمت سیدہ ام البنین، سیدہ بصارت فاطمہ اور سیدہ ضحیٰ بی بی نے نہایت خوش اسلوبی سے انجام دی، جب کہ عمومی نظارت پر خواہر سیدہ علی فاطمہ اور خواہر سیدہ علقمہ بتول صاحبہ (معلمات مدرسہ) مامور رہیں۔
مدرسہ کی طالبات نے مجالس کے فرش، انتظامات اور تبرک کی تقسیم تک تمام امور میں رضاکارانہ خدمات انجام دے کر حاضرین کے دل جیت لیے۔ یہ مجالس صرف اشک و گریہ کا موقع نہ تھیں بلکہ شعور، روحانیت اور فکری بیداری کا پیغام تھیں۔ ان کا انعقاد اس امر کا اعلان ہے کہ مدرسہ بنت الہدیٰ، ہریانہ محض درسگاہ نہیں، بلکہ شعورِ ولایت اور پیغامِ کربلا کا علمبردار ادارہ ہے۔
خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کر کے جنابِ امّ ربابؑ کو پرسہ پیش کیا، اور یہ عہد کیا گیا کہ جنابِ سکینہؑ کی مظلومیت، رہبرِ معظم کی عظمت، اور عزاداری کا وقار ہمیشہ بلند رکھا جائے گا۔"
پروگرام کی ایک قابلِ ذکر، دل نشین اور روح کو چھو لینے والی جھلک یہ بھی تھی کہ سید چھپرہ اور ضبطی چھپرہ سے تشریف لانے والی بزرگ و ممتاز ذاکرہ اول خواتین نے اپنی سوز و گداز سے بھرپور مرثیہ خوانی کے ذریعے مجلسِ عزا کو وہ روحانی کیفیت عطا کی، جس نے دلوں کو کربلا کی خاک سے جوڑ دیا۔ ان کی پُراثر صدائیں، اشکوں کی روانی اور سچے جذبے نے فضائے مجلس کو گویا مقتلِ سکینہؑ بنا دیا، جہاں ہر دل گریہ کناں، ہر آنکھ نم، اور ہر روح بیدار ہو گئی۔ ان کی زبان سے نکلنے والا ہر بند دلوں پر اترتا، اور دردِ اسیری کو محسوس کراتا رہا۔
ان کی اس گرانقدر خدمت، فکری کاوش، اور روحانی اثر پذیری کے اعتراف میں مدرسہ بنت الہدیٰ، ہریانہ کی جانب سے بدستِ مبارک محترمہ خواہر سیدہ علی فاطمہ صاحبہ اور محترمہ خواہر سیدہ علقمہ بتول صاحبہ (معلمات مدرسہ)، مجلس کے بعد باقاعدہ توصیفی اسناد پیش کی گئیں۔ یہ اسناد محض کاغذی گواہی نہ تھیں، بلکہ ایک ادبی خراجِ تحسین، روحانی اعترافِ خدمت، اور عزاداری نسواں کے اس ابدی تسلسل کا مظہر تھیں جو نسل در نسل، دل سے دل اور بزم سے بزم منتقل ہو کر آج بھی شعورِ کربلا کی شمع کو روشن رکھے ہوئے ہے۔
یہ لمحہ اس عہد کی بھی تجدید تھا کہ "ہماری نسلیں، عزاداری کی اس عظیم وراثت کو ادب، اخلاص اور آگہی کے ساتھ سنبھالتی رہیں گی۔"
رپورٹ: مولانا عقیل رضا ترابی









آپ کا تبصرہ