۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
آیت اللہ حافظ ریاض حسین نجفی

حوزہ/ وفاق المدارس شیعہ پاکستان کے سربراہ نے خطبہ جمعہ میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ مال و دولت فقط علم و فن سے مشروط نہیں۔دولت کا زیادہ یا کم ہونا بھی ایک آزمائش ہے۔ علمی و عقلی لحاظ سے کم استعداد والوں کے پاس بے پناہ دولت ہوتی ہے جبکہ کافی صاحبانِ علم و ہنرمفلس و نادار ہوتے ہیں۔ اسلامی حکومت میں حاکم کا طرزِ زندگی عام شہری کے برابر ہونا چاہیے۔آج غیر مسلم ممالک میں عام آدمی کو تقریبا ًتمام ضروریات ِ زندگی دستیاب ہیں جبکہ مسلم ممالک میں طبقاتی تقسیم کے مظاہر بہت واضح ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لاہور/ وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ مال و دولت فقط علم و فن سے مشروط نہیں۔دولت کا زیادہ یا کم ہونا بھی ایک آزمائش ہے۔ علمی و عقلی لحاظ سے کم استعداد والوں کے پاس بے پناہ دولت ہوتی ہے جبکہ بہت سے صاحبانِ علم و ہنرمفلس و نادار ہوتے ہیں۔ اسلامی حکومت میں حاکم کا طرزِ زندگی عام شہری کے برابر ہونا چاہیے۔آج غیر مسلم ممالک میں عام آدمی کو تقریبا ًتمام ضروریات ِ زندگی دستیاب ہیں جبکہ مسلم ممالک میں طبقاتی تقسیم کے مظاہر بہت واضح ہیں۔امیر المومنین حضرت علیؑ نے بھی جناب مالک اشتر کے نام امور حکومت سے متعلق ہدایات میں بھی یہی لکھا تھا کہ عوام اور اپنے مابین کسی دربان، پہرے دار کو حائل نہ ہونے دینا۔ عام آدمی کی بھی افسر، صاحبِ منصب، حاکم تک بآسانی رسائی ہو اور وہ کھل کر اپنی بات ان سے کر سکے۔اگرچہ مولا علی ؑ نے تو حاکم کی بہت سی صفات بیان فرمائی ہیں جس میں حاکم کی خصوصیات ،رہن سہن بھی بیان کیا گیا۔ فرمایا میرے لئے مناسب نہیں کہ وہ کھاﺅں اور پہنوں جو عوام کو دستیاب نہ ہو۔

جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ قرآن مجید میں حضرت سلیمان ؑ کے قصے میں کافی قابلِ توجہ امور ہیں۔ان کے لشکر کو آتا دیکھ کر چیونٹی کا اپنے ساتھیوں کو خبردار کرنا کہ کہیں حضرت سیلمان ؑ کا لشکرانہیں روند نہ دے اور حضرت سلیمان کے چیونٹی کی زبان سمجھنے پر اللہ کا شکر ادا کرنا۔اسی طرح ھُدھُد پرندے کی غیر حاضری کا نوٹس لینے میں انتطامی لحاظ سے نکتہ ہے کہ ماتحت کی حاضری اور فرائض کی بجا آوری کو چیک کرنا ہر صاحبِ منصب کا اختیار ہے۔پھر اللہ کے نبی کا یہ فرمانا کہ اگر ھدھد اپنی غیر حاضری کا معقول عُذر پیش نہ کر سکا تو اسے ذبح کریں یا دیگر سخت سزا دیں گے،اس سے ماتحت کے احتساب و تادیبی کارروائی کا اشارہ ملتا ہے۔ھد ھد نے اپنی غیر حاضری کی وجہ بیان کی اور حضرت سلیمان ؑ جیسے حاکم کے سامنے جرات سے کہا کہ اسے یمن کی ملکہ اور لوگوں کے بارے وہ کچھ معلوم ہے جو انہیں( حضرت سلیمانؑ) کو نہیں۔یعنی سلیمان جیسے طاقتور ترین حاکم میں بھی ایک کمزور ماتحت کی بات سننے کا حوصلہ ہونا چاہئے اور ملزم کی وضاحت، صفائی اور تحقیق کے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی۔حضرت سلیمان ؑ کے واقعہ میں ھدھد نے توحید پر اپنے ایمان کا ذکر کیا جو کہ اہل یمن میں نہ تھا۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بہت سے انسانوں کے بر عکس پرندے اور اس طرح کی مخلوقات اللہ پر ایمان رکھتی ہیں۔ حضرت سلیمان کا ھد ھد کے دعوے اور مشاہدے کی تصدیق کے لئے اسے خط دے کر یمن بھیجنا اور اس کا ملکہ کو جا کر خط دینے کی تفصیل قرآن میں ذکر کی گئی ہے۔ خط ملنے اور ارباب حکومت سے مشورہ کے بعد بلقیس کا شام میں حضرت سلیمان کی خدمت میں حاضر ہونے میں خاص واقعہ اس کے تخت کا منگوایا جانا ہے۔ایک عفریت جِن نے کچھ دیر میں یمن سے شام تخت لانے کا دعویٰ کیا جبکہ حضرت سلیمان کے وزیر جناب آصف بن برخیا نے پلک جھپکنے میں تخت پیش کر دیا۔ حضرت سلیمانؑ خود بھی یہ کام کر سکتے تھے لیکن اپنے وزیر کے ذریعہ کرایا جس کے پاس ” کتاب“ کا کچھ علم تھا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .