۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا مسرور عباس

حوزہ/ افغان شیعوں کی نسل کشی پر نام نہاد اسلامی تعاون تنظیم، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں کی خاموشی انتہائی افسوسناک اور مجرمانہ فعل ہے اور یہ مجرمانہ خاموشی انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعوٰی کرنے والے ممالک اور اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،سرینگر/ جموں و کشمیر اتحاد المسلمین کے صدر ممتاز مذہبی رہنما مولانا مسرور عباس انصاری نے قندوز افغانستان میں نماز جمعہ کے موقع پر جامع مسجد میں ہوئے دہشتگردانہ حملےکی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئےاقوام عالم اور امت مسلمہ سےافغانستان کی شیعہ برداری اور ان کے جائز حقوق کے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بے گناہ اور معصوم نمازیوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنا کر انہیں خاک و خون میں غلطاں کرنا اسلامی اور انسانی اصول و اقدار کی کھلی مخالفت ہے اور اسلام میں اس طرح کی بربریت کا کوئی جواز نہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغان شیعوں کی نسل کشی پر نام نہاد اسلامی تعاون تنظیم، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں کی خاموشی انتہائی افسوسناک اور مجرمانہ فعل ہے اور یہ مجرمانہ خاموشی انسانی حقوق کی علمبرداری کا دعوٰی کرنے والے ممالک اور اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

انہوں نے کہا کہ مذہب کے نام پر قتل و غارت گری کرنا دراصل اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی ایک بڑی سازش ہے، اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں کا براہ راست اور بالواسطہ تعلق عالم استعمار بالخصوص شیطان بزرگ امریکہ سے ہے جو زرخرید ایجنٹوں کو استعمال میں لاکر عالم اسلام کا امن و استحکام  ثبوتاژ کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

مولانا نے کہا کہ افغانستان میں شر پسند عناصر ایک بار پھر سر اٹھار ہیں جو روایتی بھائی چارہ اور وحدت اسلامی کے لئے سم قاتل ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس طرح کی ظالمانہ اور وحشیانہ کارروائیوں پر فوری طور پر روک  لگائیں۔

مولانا نے کہا کہ شہادت ملت تشیع کی میراث ہے اور اس طرح کی بربریت اور ظلم و جور سے افغان شیعہ برادری کے حوصلے پست نہیں ہونگے نہ ہی ان مذموم کاروائیوں سے غیور افغانیوں کو ڈرایا دھمکایا جاسکتا ہے۔

مولانا نے شہدا کے بلند درجات اور زخمی نمازیوں کی جلد صحتیابی کے لئے دعا کی اور شہدا کے ورثاء کے ساتھ دلی ہمدردی ویکجہتی اور تعزیت و تسلیت کا اظہار کیا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .