حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،لکھنؤ/ یوم ولادت حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اور یوم قیام تنظیم المکاتب کے موقع پر بانیٔ تنظیم المکاتب ہال گولہ گنج لکھنؤ میں سیمینار منعقد ہوا۔مولوی سید میثم رضا موسوی متعلم جامعہ امامیہ نے تلاوت قرآن کریم سے سیمینارکاآغاز کیا۔ بعدہ مولوی محمد صادق حیدری فاضل جامعہ امامیہ نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی معروف دعا مکارم الاخلاق کے اقتباسات بیان کئے۔
مولوی علی محمد معروفی متعلم جامعہ امامیہ اور مولانا سید کیفی سجاد انسپکٹر تنظیم المکاتب نے بارگاہ امام سجاد علیہ السلام میں منظوم نذارنہ عقیدت پیش کیا۔مولانا سید ظفر عباس مبلغ جامعہ امامیہ اور مولانا نثار حسین مبلغ جامعہ امامیہ نے مقالات پیش کئے۔
مولانا سید علی ہاشم عابدی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے امام زین العابدین علیہ السلام کی حدیث ’’اگر لوگ علم حاصل کرنے کی فضیلت جان لیتے تو اس راہ میں خون بہانے اور سمندروں کی گہرائیوں میں جانے سے پرہیز نہ کرتے۔ ‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ اللہ نے تلاوت آیات ، تزکیہ نفوس اور کتاب و حکمت کی تعلیم کو رسول اللہ (ص) کی بعثت کا مقصد بتایا ۔ ہمارے ائمہ علیہم السلام حضورؐ کے جانشین ہیں لہذا انکا بھی وہی مقصد ہے۔ ہجرت سے قبل مکہ مکرمہ میں زیادہ تر جو تعلیم دی گئی یا جو آیتیں نازل ہوئیں ان کا تعلق عقائد سے ہے اور ہجرت کے بعد مدینہ میں جو تعلیم دی گئی اور جوآیتیں نازل ہوئیں ان کا زیادہ تر تعلق احکام سے ہے ، اسی طرح امام سجاد علیہ السلام کے کربلا ، کوفہ اور شام میں ارشادات کا زیادہ تر تعلق عقائد ہے ۔ مدنیہ منورہ میں جو ارشادات و ہدایات فرمائی اس کا زیادہ تر تعلق احکام سے ہے۔ لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مدنی زندگی میں جو فرقے اور نظریات وجودمیں آئے امامؑ نے اس سے چشم پوشی کی ہو بلکہ کبھی تعلیم کے ذریعہ ، کبھی دعا کے ذریعہ صحیح عقائد لوگوں تک پہنچائے۔ شیخ طوسیؒ نے آپ کے شاگردوں کی تعداد ۱۷۱ نقل فرمائی ہے۔ اسی طرح آپ نے ایک لاکھ غلام خریدے، تعلیم و تربیت کے بعد انہیں راہ خدا میں آزاد کیا جو بعد میں اسلام کے مبلغ بنے۔ آپ نے کبھی بھی اپنے کسی غلام کو غلام نہیں سمجھا بلکہ ہمیشہ ’’یابنی‘‘ ائے میرے بیٹے کہہ کر خطاب کیا یعنی آپ نے غلاموں کی اولاد کی طرح تربیت کی۔
مولانا منظر علی عارفی صاحب استاد جامعہ امامیہ نے ’’تحریک دینداری سے پہلے اور بعد کے حالات‘‘ کے عنوان پر تقریر کرتے ہوئے بیان کیا کہ بانی ٔ تنظیم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ نے سماج کی مشکلات اور پریشانیوں کا جائزہ لیتے ہوئے تحریک دینداری کا آغاز کیا اور ادارہ تنظیم المکاتب کو قائم کیا کہ جس کے ثمرات آج سب کے پیش نظر ہیں۔ بنگال سے لے کر لداخ تک قریہ قریہ بستی بستی بچوں کو دین کی تعلیم دی جارہی ہے۔ موجودہ دیندار نسل میں اکثریت انکی ہے جنہوں تنظیم المکاتب کے مکتب میں تعلیم حاصل کی ہے اوراگر کسی نے مکتب میں نہ بھی پڑھا ہو تو کم از کم مکاتب کے نایاب نصاب تعلیم کو پڑھ کر دین حاصل کیا ہے۔ ظاہر ہے ہمارے نصاب میں ابتداء سے ہی بچوں کو عقائد ، اخلاق و احکام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ الف سے اللہ ، ت سے تعزیہ ، ج سے جانماز، ک سے کعبہ ، ع سے علم ، س سے سجدہ گاہ پڑھایا جاتا ہے تا کہ پڑھنے والے بچے ان سے مانوس رہیں اور آگے چل کر انکو سمجھنے میں آسانی رہے۔ ادارہ کے تعلیمی نصاب میں عقائد پر خاص توجہ دی گئی تا کہ بچہ بچپن میں ہی اتنا مضبوط ہو جائے کہ اسے کبھی گمراہی کی آندھیاں ہلا نہ سکیں۔
مولانا سید تہذیب الحسن صاحب استاد جامعہ امامیہ نے سورہ مبارکہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۷۶ ’’اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے، بڑے گنہگار کوپسند نہیں کرتا‘‘ کو سرنامہ کلام قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ کربلا کے بعد جب امام زین العابدین علیہ السلام مدینہ منورہ پہنچے تو روایات کی روشنی میں آپ کے مخلص چاہنے والوں کی تعداد ۲۰ سے زیادہ نہ تھی، لیکن امام ؑ نے تعلیم و تربیت و ہدایت اور دعا کے ذریعہ وہ عظیم کام انجام دیا کہ بعد میں اما م محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے مدرسہ قائم کیا جسمیں چار ہزارطلاب مصروف تعلیم ہوئے۔ امام ؑ کی اسی سیرت کی پیروی کرتے ہوئے آزادی اور تقسیم کے بعد کہ جب زمینداری کا بھی خاتمہ ہو چکا تھا خطیب اعظیم مولانا سید غلام عسکری طاب ثراہ نے پانچ مکاتب سے ادارہ تنظیم المکاتب کا قیام کیا اور آج الحمد للہ اس کی وسیع خدمت آپ کے سامنے ہیں۔
مولانا فیروز علی بنارسی صاحب استاد جامعہ امامیہ و ایڈیٹر ماہنامہ تنظیم المکاتب کے دعائیہ کلمات پر سیمینار اختتام پذیر ہوا۔ سیمینار میں نظامت کے فرائض مولانا سید علی مہذب خرد نقوی صاحب نے انجام دئیے۔