حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،بھارت میں سفارتی امور کے ماہرین اور سیاست داں وزیر اعظم نریندر مودی کے اس فیصلے پرحیرت سے کہیں زیادہ تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ آخر ایسا کیا ہوا کہ مودی حکومت نے مشرق وسطیٰ کے حوالے سے اپنی دیرینہ پالیسی یکسر تبدیل کردی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اچانک نہیں ہوا۔ بھارت دہائیوں سے دھیرے دھیرے اسرائیل سے قربت بڑھاتا رہا ہے البتہ سن 2014 میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس کی رفتار کافی تیز ہو گئی۔
غیرملکی اور مشرق وسطیٰ امور کے ماہر صحافی اسد مرزا کا کہنا ہے کہ بیشتر ممالک آج اقتصادی فائدے کو مدنظر رکھتے ہیں اور بھارت بھی اس سے مستشنیٰ نہیں ہے۔ اسد مرزا نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ساتھ بھارت کے تجارتی اور دفاعی تعلقات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔ وہ ہتھیار اور ٹیکنالوجی درآمد کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات خراب کرنا نہیں چاہتی۔"حالانکہ اس کے مضمرات ضرور ہوں گے۔"
خیال رہے کہ سن 1971 اور 1999 کی بھارت پاک جنگ کے دوران اسرائیل نے نئی دہلی کو ہتھیار، گولہ بارود اور خفیہ معلومات فراہم کی تھیں۔ سن 2017 کے بعد سے اسرائیل بھارت کو ہتھیاروں کے سب سے بڑے سپلائرز میں سے ایک ہے۔ دونوں براک 8 میزائل ڈیفنس سسٹم تیار کر رہے ہیں۔ اور نئی دہلی نے اسرائیل سے پیگاسس جاسوسی سافٹ ویئر بھی خریدے، گوکہ مودی حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
اسد مرزا کا خیال ہے کہ اسرائیل کی کھل کر حمایت کے پیچھے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں حکومتیں دائیں بازو کی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں اور اس سلسلے میں دونوں میں کافی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ اسی کی عکاسی سوشل میڈیا پر بھی ہو رہی جہاں ہندو قوم پرست اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں پر خوشی اور شادمانی کا اظہار کرر ہے ہیں۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ "یہ وہ لوگ ہیں جنہیں تاریخ کا ذرا بھی علم نہیں۔ انہیں نہیں معلوم کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا اور فلسطینیوں کو مقبوضہ علاقے میں دھکیل دیا۔یہ لوگ اپنی جہالت میں آنکھیں بند کرکے حکومت کے موقف کی تائید کر رہے ہیں۔"
بھارت ماضی میں اسرائیل کے خلاف بعض فلسطینی گروپوں یا افراد کی طرف سے تشدد کی کارروائیوں کی مذمت کرتا رہا ہے لیکن اس نے سرکاری طورپر کبھی بھی تمام فلسطینیوں کے لیے "دہشت گرد" کی اصطلاح استعمال نہیں کی تھی۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھارت نے اسرائیل کی ہمیشہ حمایت نہیں کی ہے۔ بھارت نے 1948 میں اسرائیل کے قیام کی مخالفت اور فلسطینی مہاجرین کے حقوق کی حمایت کی تھی۔1967میں چھ روزہ جنگ پر "انتہائی تشویش" کااظہار اور فلسطینیوں کے "جائز حقوق" کی تائید کی تھی۔ 2006 میں لبنان جنگ میں اسرائیل کو "غیر متناسب طاقت کا استعمال" روکنے کی اپیل کی تھی اور سن 2014 میں غزہ کی جنگ میں اسرائیل اور فلسطینی گروپوں کے مابین مذاکرات پر زور دیا تھا۔ اس نے غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کی تفتیش کے متعلق اقوام متحدہ کے قرارداد کی حمایت بھی کی تھی۔
حتی کہ بی جے پی کے رہنما اور بھارت کے سابق وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپئی نے سن 1977 میں بھارت کے وزیر خارجہ کے طور پر دہلی میں ایک بڑے جلسہ عام میں کہا تھا، "ہمارا یہ واضح موقف ہے کہ عربوں کی جس زمین پر اسرائیل قبضہ کرکے بیٹھا ہے وہ زمین اس کو خالی کرنی ہوگی...جو عربوں کی زمین ہے اسے خالی ہونا چاہئے۔ جو فلسطینی ہیں ان کے اپنے جائزحقوق ملنے چاہئیں۔"
لیکن لگتا ہے کہ اب پورا منظر نامہ بدل گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم مودی کی اسرائیلی ہم منصب نیتن یاہو کے ساتھ سال 2017 میں اسرائیل کے اولگا بیچ پر ننگے پاوں چہل قدمی کرتے ہوئے مناظر جن لوگوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں انہیں ہندو قوم پرست جماعت کے رہنماکے بیان سے قطعی حیرت نہیں ہوئی۔
متعدد سیاسی جماعتوں نے الزام لگایا کہ حکمراں بی جے پی اسرائیل حماس کی جنگ سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو مزید ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بائیں بازو کی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (ایم ایل) کے جنرل سکریٹری دیپانکر بھٹاچاریہ کا کہنا تھا کہ بی جے پی بھارت میں دہشت گردانہ حملوں اور حماس کی موجودہ جارحیت کو غلط طریقے سے یکساں بتانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور مودی حکومت ایک بار پھر فلسطین پر قبضہ اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کے جرائم پر آنکھیں موند کر تازہ واقعات کو مسلم مخالف نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے۔
شیو سینا کے رکن پارلیمان سنجے راوت کا کہنا تھا، "جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے تو ہمارے ملک میں ایک روایت رہی ہے۔ اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے یاسر عرفات کی حمایت کی تھی۔ رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کا کہنا تھا کہ بھارت ہمیشہ فلسطین کے کاز کا حامی رہا ہے۔
ادھر اپوزیشن کانگریس پارٹی نے بھی اسرائیلی جارجیت پر سخت نکتہ چینی کی ہے۔ پارٹی نے ایک بیان میں کہا، وہ "اسرائیل کے لوگوں پر حملوں کی مذمت کرتی ہے لیکن ہمیشہ اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ فلسطینی عوام کی عزت نفس، مساوات اور باوقار زندگی کی جائز خواہشات کو صرف بات چیت اور مذاکرات کے ذریعہ پورا کیا جانا چاہئے۔"