۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
News ID: 394011
24 اکتوبر 2023 - 17:45
سید شفقت شیرازی

حوزه/ ترکی دنیائے اسلام کا ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے لئے سادہ لوح مسلمانوں کی نگاہیں ترکی پر لگی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں میڈیا پر جو ترکی کا چہرہ دکھایا جاتا ہے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور ترکی کو عالم اسلام کا خیرخواہ اور دفاع کرنے والا بناکر پیش کیا جاتا ہے۔

تحقیق: حجتہ الاسلام ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

حوزہ نیوز ایجنسی| ترکی دنیائے اسلام کا ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے مسئلہ فلسطین اور کشمیر کے لئے سادہ لوح مسلمانوں کی نگاہیں ترکی پر لگی رہتی ہیں۔ ہمارے ہاں میڈیا پر جو ترکی کا چہرہ دکھایا جاتا ہے اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور ترکی کو عالم اسلام کا خیرخواہ اور دفاع کرنے والا بناکر پیش کیا جاتا ہے۔

ترکی کے متعلق حقائق بیان کرنے کا مقصد ہرگز ترکی کی مخالفت نہیں بلکہ وہ حقائق جو ساری دنیا جانتی ہے ان سے اپنی عوام کو بھی آگاہ کرنا ہے تاکہ ہماری سادہ لوح قوم کسی پروپیگنڈے کا شکار نہ ہو. اور ترکی کے بارے میں ہماری توقعات حقائق تک محدود رہے۔

ترکی فلسطین کی کتنی مدد کرے گا اس سوال کا بہترین جواب تو خود فلسطینی قوم ہی دے سکتی ہے لیکن تاریخی حقائق جان آپ خود بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ترکی فلسطین کی کتنی مدد کرے گا ناظرین کچھ سال پیچھے چلتے ہیں۔

ترکی اور اسرائیل کے تعلقات باضابطہ طور پر مارچ 1949ء میں اس وقت طے پائے جب اسرائیل کو وجود میں آئے محض ایک سال کا عرصہ ہوا تھا یاد رہے کہ ترکی اسرائیل کو تسلیم کرنے والا پہلا مسلم اکثریتی ملک بھی ہے 1950ء میں دونوں ممالک کے درمیان باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہو گئے ناظرین ترکی وہ پہلا اسلامی ملک تھا کہ جس نے 1957ء میں اسرائیل کے سربراہ بن غوریون کا اپنی سرزمین پر پرتپاک استقبال کیا۔ 1958ء میں اسرائیل کے وزیر اعظم ڈیوڈ بن غوریون اور ترکی وزیر اعظم عدنان مندریس نے مشرق وسطی میں روسی نفوذ کا مقابلہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کئے۔

سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد امریکہ جب سپر پاور کے طور پر ابھرا تو ترکی کی سیاست میں بھی ایک نئی تبدیلی آئی. ترکی چونکہ امریکہ کا اتحادی تھا، اس لیے ترکی نے بھی سوویت یونین کے خاتمے سے پیدا ہونے والے خلاء کو پر کرنے اور اپنے نفوذ کو خطے میں بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ ترک سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطى، بلقان اور قوقاز کے ممالک پر انکا حق ہے. تو بس اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے لئے ترکی کو ایک طاقتور فوج کی ضرورت تھی۔ لیکن جب امریکہ و یورپ نے ترکی کو جدید عسکری ٹیکنالوجی دینے سے انکار کیا تو ان حالات میں ترکی کی نگاہیں اسرائیل پر پڑیں کہ جو جدید ترین اسلحہ اور ٹیکنالوجی لیس ہے. دوسری طرف اسرائیل کو بھی خطے میں ایک مضبوط شراکت دار کی ضرورت تھی۔

1994ء میں اسرائیل کے صدر عزر وایزمین نے ترکی کا دورہ کیا جس کے بعد ترکی کی خاتون وزیر اعظم تانسو چیلر نے اسرائیل کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کے درمیان " امن و سیکورٹی " معاہدے پر دستخط ہوئے. تاکہ دونوں آپس میں خفیہ معلومات کا تبادلہ کر سکیں. اور ترک فضائیہ کو اسرائیل میں ٹریننگ دی جائے۔

1996ء میں ترکی نے اپنی فوجی صلاحیتوں میں اضافے اور جدید اسلحہ کی خریداری کے لئے بڑی مقدار میں سرمایہ خرچ کیا. اور پہلے دس سال کے لئے 25 سے 30 بلین ڈالرز بجٹ طے ہوا، جس کی مقدار اگلے تیس سال تک کے لئے 150 بلین ڈالرز تک کردی گئی۔

26 اگست 1996ء کو ترکی اور اسرائیل نے اسلحہ بنانے کے معاہدے پر دستخط کئے۔

اگست 1996ء میں دونوں ممالک میں عسکری شعبوں میں تعاون کے معاہدے ہوئے. جس کے تحت مشترکہ بری ، بحری اور فضائی فوجی مشقیں اور ڈائیلاگ وغیرہ شامل ہیں، یہی نہیں بلکہ ترکی اسرائیلی اسلحہ کا خریدار بھی ہے جن میں جنگی جہاز، ٹینک اور توپخانے شامل ہیں۔ اس معاہدے کے بعد باہمی سرمایہ کاری کے فروغ، دہرے ٹیکس سے بچنے کے معاہدے اور اقتصادی تعاون کے معاہدے جیسے کئی معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔

جس کے بعد اسرائیل نے ترکی کے 54 جنگی جہازوں کو اپ گریڈ کیا. اور اس پانچ سالہ ڈیل کی لاگت 800 ملین ڈالرز تھی۔ اسی طرح میزائل اور ریڈار بھی بنائے گئے جو ترکی نے اپنے ہی اسلامی ممالک عراق اور شام کی سرحدوں پر نصب کر دئیے۔

اسی طرح دور تک مار کرنے والے میزائل بنانے کا معاہدہ بھی طے پایا جس کا بجٹ 150 ملین ڈالرز طے ہوا۔

اسرائیل کی جغرافیائی وسعت کم ہونے کی وجہ اسرائیل نے ان معاہدوں سے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے جنگی جہازوں کو پرواز کے لیے ترکی کی وسيع فضا استعمال کرنے کا موقع مل گیا. جس کے سبب وہ اپنے دشمن اسلامی ممالک کے قریب آزادانہ پرواز کرنے لگے۔

1997ء میں ترکی اور اسرائیل کے اہم وزراء اور چیف نے دونوں ممالک کے دورے کرکے عسکری تعلقات کو مزید فروغ دیا۔

30 نومبر سے 4 دسمبر 1997ء تک امریکہ ترکی اور اسرائیل کی مشترکہ ٹریننگ شروع ہوئی اور طے پایا کہ یہ ہر سال ہوگی۔

یکم جنوری 2000 میں ترکی اور اسرائیل کے مابین ڈیوٹی فری تجارت کا معاہدہ بھی طے پایا۔

اب آئیے اردگان کے دور حکومت اور ترک اسرائیل تعلقات پر بھی ایک نگاہ ڈال لیتے ہیں:

جب اردگان کی پارٹی نے 2002ء میں اقتدار حاصل کیا تو ایک اسلامی چهره رکھنے والی اس پارٹی کی حکومت سے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ یہ اقتدار پر آتے ہی اسرائیل کے ساتھ سارے معاہدے ختم کرنے کا اعلان کریں گے. اور حماس اور فلسطینی مقاومت کے ساتھ کھڑے ہونگے لیکن اردگان نے اپنے اسلاف کے راستے کا بی انتخاب کیا اور اسرائیل کے ساتھ امن وسیکورٹی معاہدے کو جاری رکھا بلکہ اردوان نے فورا امریکہ کا سفر کیا وہاں یہودی لابی اور امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں اور انہیں اعتماد میں ليا۔

مارچ 2003ء میں جب عراق پر امریکہ نے قبضہ کیا تو ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردگان نے پوری کوشش کی کہ امریکہ کے ساتھ ملکر عراق میں مداخلت کرے لیکن ترک پارلیمنٹ نے انکار کردیا. جون 2004ء کو مشرق وسطیٰ کے وسیع البنیاد امریکی منصوبے کے سربراہی اجلاس میں اردگان نے شرکت کی. اور امریکہ و ترکی کے باہمی تعاون سے خطے کا نیا روڈ میپ بنانے پر تعاون اور ترکی کی حکومت کو ایک اسلامی ڈیموکریٹک لیبرل نظام بطور نمونہ خطے میں متعارف کروانے کی کوشش پر اتفاق ہوا. 25 جنوری 2004 امریکی یہودی کانفرنس تنظیم ‏AJC نے ادرگان کو انکی خدمات کے صلے میں تمغہ شجاعت سے نوازا۔

مئی 2005ء کو اردگان نے اسرائیل کا دورہ کیا اردگان نے اس دورے میں اسرائیل کے ساتھ 687.5 ملین ڈالرز کا سودا کیا اور اسرائیل سے M601 جنگی ٹینک خریدے جنہیں اسرائیلی چلتا پھرتا قلعہ کہتے تھے یہ الگ بات ہے کہ 2006 میں جب اسرائیل نے لبنان پر 33 روزہ جنگ مسلط کی تو حزب اللہ نے ایک ہی دن میں اسی قسم کے 40 اسرائیلی ٹینک تباہ کردئیے تھے اردگان کے اس دورے کی حیران کن بات یہ تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم ایریل شیرون نے اردگان کا پرتپاک استقبال کرتے ہوئے کہا " اسرائیل کے ابدی دارالحکومت قدس شہر میں خوش آمدید " اردگان نے جب اس بات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں کیا تو اسے اپنے سابق سربراہ نجم الدین اربکان کی" سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا جس نے اس پر امریکہ و یہودی لابی اور عالمی صہیونیت کا ایجنٹ ہونے کا الزام بھی لگایا اسی سال 10 جون 2005ء کو امریکی یہودی ادارے ADL نے اردگان کو نشان شجاعت سیاسی کا تمغہ عطا کیا۔

15 فروری 2006ء کو جب حماس کے سیاسی سربراه خالد مشعل نے ترکی کا دورہ کیا تو اردوان نے بذات خود امریکا اور اسرائیل کے ڈر سے حماس رہنما سے ملنا تک گوارا نہیں کیا. اور اس وقت کے وزیر خارجہ عبداللہ گل نے وزارت خارجہ آفس کی بجائے اپنی پارٹی کے دفتر میں حماس رہنما سے ملاقات کی اور انہیں نصیحت کی کہ اسرائیل کے خلاف عسکری عمل سے باز رہیں یار رہے کہ یہ دورہ حماس کی فلسطینی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کا تھا۔

13 نومبر 2007ء کو اسرائیل کے صدر شمعون پیریز کو ترکی کے دورے کی دعوت دی گئی اور یہ پہلا اسرائیلی صدر تھا کہ جس نے ترک پارلیمنٹ سے خطاب کیا۔

2009ء کو ترکی نے اسرائیلی کمپنی کو شام ترکی سرحدی علاقے سے بارودی سرنگیں صاف کرنے کا ٹھیکہ دیا۔

2018ء میں اسرائیل اور ترکی کا تجارتی حجم تقریبا 6 ارب ڈالرز تک پہنچ چکا تھا. اور اسی سال 3 لاکھ 20 هزار اسرائیلی باشندوں کا سیاحت و تفریح کے لیے ترکی کی سرزمین پر استقبال کیا گیا۔

9 مئی 2018 کو انقرہ میں قائم اسرائیلی سفارتخانے میں اسرائیل کے قیام کے 70 سال پورے ہونے کا جشن گرمجوشی سے منایا گیا جس میں ترک وزیر خارجہ سمیت اعلی ترک حکام نے شرکت کی۔

یاد رہے اردگان ووٹ حاصل کرنے اور مسلمانوں کے دل جیتنے کے لئے کبھی کبھار انقلابی بیانات اور خطاب کرتا رہتا ہے۔

آج رجب طیب اردگان کہتے ہیں کہ " وہ ہمیشہ کے لئے فلسطین کا دفاع کریں گے جیسا کہ سلطان عبدالحمید نے دفاع کیا تھا۔"

اب آئیے جانیے کہ یہ سلطان عبدالحمید ہے کون؟ تاریخ کو کھنگال لیجئے، سلطان عبدالحمید وہ شخص ہے کہ اس وقت اگر سلطان عبدالحمید یہودیوں کو فلسطین کی سرزمین کی طرف ہجرت کی اجازت نہ دیتا اور سہولت کار نہ بنتا اور مالی امداد نہ کرتا تو آج اسرائیل کا وجود ہی نہ ہوتا۔

جب عرب بہار کے نام پر خطے میں اسرائیل کی خاطر حالات خراب کئے گئے اور جنگیں مسلط کی گئیں تاکہ شام ، ایران ، حزب اللہ اور فلسطینی مقاومت کو کچلا جا سکے تو امریکہ کی سرپرستی میں جو اتحاد تشکیل پایا تو اس میں بھی فرانس ، برطانیہ سمیت یورپی ممالک اور خطے کے ممالک میں سعودی عرب، قطر، امارات، اسرائیل اور ترکی سرفہرست تھا۔

ترکی ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدر اردگان کے بیٹے براق اردوان کے بحری جہاز ترکی سے سامان اور عراقی کرد علاقوں کا پٹرول اسرائیل منتقل کرتے ہیں. اور اسرائیل کے زرعی بیج اور مصنوعات بھی ترکی کی منڈیوں میں بکتے ہیں۔

داعش کے شامی علاقوں سے نکالے جانے والے پٹرول کا خریدار اور بلیک مارکیٹ میں بیچنے والا بھی ترکی ہی ہے۔

اسرائیل اور فلسطین کے موجوہ حالات میں ترکی فلسطینیوں کی کتنی مدد کر رہا ہے یہ سب کے سامنے ہے۔

ناظرین امید کرتے ہیں کہ یہ تاریخی حقائق جان کر آپ کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہوگا کہ ترکی فلسطین کی کتنی مدد کرے گا۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .