حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، المصطفیٰ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اہل قلم و محققین کی جانب سے "فلسطین عالم اسلام کا اہم ترین مسئلہ" کے عنوان سے ایک عظیم علمی نشست منعقد ہوئی، جس میں اہل قلم اور کالم نگار حضرات سمیت طلباء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔
رپورٹ کے مطابق، علمی نشست میں اہل قلم، محققین اور میڈیا پر فعال شخصیات نے شرکت کی، جبکہ نشست سے استاد حوزہ حجت الاسلام والمسلمین شیخ فدا علمی حلیمی، معروف کالم وتجزیہ نگار محمد بشیر دولتی، محقق محمد سجاد شاکری اور ریسرچ اسکالر محمد صادق جعفری نے خطاب کیا۔
مولانا محمد بشیر دولتی نے "مسئلہ فلسطین اور قلمی جہاد"کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ"قلم کی افادیت کسی سے پوشیدہ نہیں قرآن نے قلم کے ساتھ تحریر کی بھی قسم کھائی ہے، اس لئے قلم کو کہاں استعمال کرنا ہے، ہمیں سوچنا ہوگا۔ اگر انسان کی فکری نہج درست ہو تو حقائق کو بیان کرے گا، لہذا قلم کو دین، حق اور مظلوم کی حمایت میں استعمال کرنا، ہماری زمہ داری ہے۔ اس وقت مسئلہ فلسطین پر لکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ دنیا میں بے حد پروپیگنڈا اور غیر منطقی تجزیہ ہو رہا ہے۔"
انہوں نے مزید کہا کہ"اس وقت فلسطین پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ غزہ پر بمباری جاری ہے۔اور عام انسان مدد کے لیے پکار رہا ہے توہم کم از کم سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کو متحرک کریں۔اصل کام حکومتوں کو بیدار کرنا ہے ۔لیکن بدقسمتی سے بعض اسلامی ممالک سے گزر کر غذا واسلحہ اسرائیل پہنچ رہے ہیں.مگرفلسطین اس وقت تنہا ہے، لہذا ہمارا، اپنی تحریروں وقلم کو استعمال کرکے ذہنوں کو بیدار کرنا بھی ایک قسم کاجہاد ہے۔"
مولانا صادق جعفری نے "مقاومت کی حمایت وقت کی ضرورت"کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مقاومت کی حمایت بھی خود ایک قسم کی مقاومت ہے۔اس کی ضرورت اسلامی وانسانی دونوں نکتہء نظر سے درست ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم یہاں بعض دلائل بیان کریں گے:
1.ایک طرف کفر کی طاقت،باطل اور ظالم ہے دوسری طرف حق اور مظلوم۔مظلوم کی حمایت اور حق سے دفاع لازم ہے۔
2.غزہ کا مسئلہ تمام مسلمانوں کا مشترکہ مسئلہ ہے جس پر سب مسلمانوں کا اتفاق ہے اور یہ مسلمانوں میں وحدت کا ذریعہ ہے۔پہلی بار تمام مسلمان شیعہ،سنی ،زیدی سب اس مسئلہ پر اکھٹے ہیں۔
3.پوری دنیا میں ایک تہذیبی جنگ ہے۔خیر وشر کا۔اس لیے یورپ اسرائیل کی حمایت میں کھڑا ہے۔امام موسی صدر نے کہا تھا:اسرائیل شر مطلق ہے۔کیونکہ یہودیوں کامقصد دوسروں کو شراب،فساد اور مادیات کی جانب لے جاناہے۔تاکہ لوگ انہی میں مشغول ہوں اور ان سے فکر و سوچ کی صلاحیت ختم ہو جائے۔
4.تاریخ میں اس وقت قیادت مقاومت کے ہاتھ میں ہیں جس پر شیعہ سنی سب متحد ہیں۔
5.مقاومت ومھدویت میں مکمل ھم آہنگی ہے کیونکہ امام کامقصد بھی ظلم وستم کاخاتمہ اور عدل وانصاف کاقیام ہے۔اور مقاومت حقیقت میں کربلا کی عکاسی ہے۔
مولانا سجاد شاکری نے"مسئلہ فلسطین اور قائدین پاکستان کا اصولی موقف"کے عنوان پر اظہار خیال میں کہاکہ:
فلسطین سے مراد وہ پورا علاقہ ہے جہاں اسرائیل نام کی کوئی چیز دنیا کے نقشے پر نہیں۔جغرافیائی لحاظ سے بھی دنیا میں اسرائیل نام کا کوئی ملک دنیا میں نہیں۔
پاکستان کے جن قائدین نے اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کی حمایت کی، ان میں علامہ اقبال، قائد اعظم، علامہ مودودی، شہید عارف حسینی اور ڈاکٹر اسرار احمد جیسی شخصیات سرفہرست ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان میں سے دو شخصیات، علامہ اقبال اور قائد اعظم کے نظریات اور مؤقف بیان کرنے پر اکتفا کروں گا۔
علامہ اقبال اور قائد اعظم نے سب سے پہلے یہودی ریاست کی مخالفت،خود یہودیوں کو ہوشیار کرنا،فلسطین کی مکمل حمایت واسرائیل کی مخالفت اور اس مسئلہ کا حل پیش کیاہے۔جو کہ ان دونوں شخصیات کے مختلف فرامین واقوال میں واضح طور پر موجود ہے۔
شیخ فدا علی حلیمی نے"دفاع فلسطین کے مبانی ودلائل"کے عنوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں سب سے پہلے فلسطین کی اہمیت اور مقام اور اسرائیل کے خطرات کو سمجھنا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین انبیاء کی سرزمین، ادیان الٰہی کا مرکز ہے، بیت الاقصیٰ وہاں موجود ہے جس کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور انبیاء کے آثار وتبرکات کا مرکز ہے۔ ساتھ جغرافیائی لحاظ سے بھی اہمیت کے حامل ہے۔
اسرائیل کے خطرات:
اسرائیل کا مقصد مشرق وسطیٰ پر جنگ مسلط کرنا ہے۔ نیل تا فرات کا نظریہ اور اسرائیل عالم اسلام کے لئے تہدید کاباعث ہے۔ اسرائیل استکباری طاقتوں کی حمایت سے وجود میں آیا ہے۔جس کے ہاتھ بے گناہوں کے خون سے رنگین ہے۔
دنیا میں سیاسی اور اقتصادی معاملات میں بحران پیدا کرنا اسرائیل کا ہدف ہے۔
فلسطین کے دفاع کے مبانی و دلائل:
تمام فقہاء کے نزدیک اسلامی سرزمین کا دفاع ضروریات دین میں سے ایک ہے۔
1.قرآن مجید کی کثیر آیات میں اس بات کی تصریح ہے۔جہاں مظلوموں، بے گناہ بچوں، خواتین اور لاچار افراد کو دشمن سے بچانا اور ان کے دفاع کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
2.روایات وسیرت معصومین اس بات کی گواہ ہے۔
3.عقل: ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت ایک فطری عمل ہے جس کی عقل تائید کرتی ہے۔
4.سیاسی وسماجی لحاظ سے تمام ممالک کے آئین میں خود مختاری اور ملک کے تحفظ ضروری ہے۔
5.انسانیت: کسی بھی انسان میں انسانی رمق باقی ہے تو وہ ایسے مظالم کی مخالفت کرے گا۔جیساکہ دنیا کے عام لوگ اسرائیل کی مخالفت اور فلسطین کی حمایت انسانیت کے ناطے کررہے ہیں۔
6.عالمی قوانین:اقوام متحدہ میں دفاع مشروع کا قانون موجود ہے کہ ہر ایک کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔