حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، یونیورسٹی آف ایڈنبرا کی پروفیسر دیوی سریدھر نے غزہ کی پٹی میں موجودہ انسانی بحران کے نتائج کے بارے میں لکھا: غزہ کی پٹی میں بہت سے شہری نہ صرف گولیوں سے بلکہ صحت کے مسائل سے بھی مر سکتے ہیں۔
اس یونیورسٹی کی پروفیسر نے مزید کہا: غزہ پر اسرائیل کے اس حملے کو گزشتہ تیس سالوں میں سب بڑے حملے کے طور پر ریکارڈ کیا گیا ہے، جس کی وجہ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں اور اقوام متحدہ کے ملازمین کی ایک بڑی تعداد کو بھی جا گنوانا پڑا۔
غزہ میں روزانہ 160 بچے مارے جاتے ہیں اور یہ بچوں کے لیے دور حاضر کی سب سے بڑی خونریزی ہے اور یہ تعداد شام، افغانستان اور یوکرین میں ہونے والی ہلاکتوں سے کہیں زیادہ ہے۔
انہوں نے غزہ کی تقریباً 20 لاکھ افراد کی آبادی کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: اگر کوئی تبدیلی نہ کی گئی تو اگلے سال دنیا کو تقریباً نصف ملین افراد کی موت کا سامنا کرنا پڑے گا جو کہ غزہ کی آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی ہے۔
واضح رہے کہ غزہ میں 7 اکتوبر شروع ہونے والی سے 31 دسمبر بروز اتوار تک 21,822 شہید اور 56,451 زخمی ہوئے ہیں، ادھر فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ کم از کم 7000 فلسطینی اب بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اس سے قبل اقوام متحدہ اور عالمی ادارہ صحت نے اعلان کیا تھا کہ غزہ میں مختلف متعدی اور پھیلنے والی بیماریوں کی وجہ سے دسیوں ہزار افراد کی جانیں خطرے میں ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے سربراہ کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کی پناہ گاہوں میں تیزی سے پھیلنے والی بیماریوں میں سانس کے انفیکشن اور اسہال سب سے زیادہ عام ہیں، فراہم کردہ اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 1 لاکھ 80 ہزار فلسطینی پناہ گزین سانس کے انفیکشن میں مبتلا ہیں، اور غزہ کی پٹی میں اس وقت پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 136,000 بچوں کو اسہال ہے۔