۲۵ آذر ۱۴۰۳ |۱۳ جمادی‌الثانی ۱۴۴۶ | Dec 15, 2024
1

حوزہ/ سینئر برطانوی سفارت کار نے غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں اپنے ملک کے ملوث ہونے کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سینئر برطانوی سفارت کار نے غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم میں اپنے ملک کے ملوث ہونے کی وجہ سے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

مڈل ایسٹ مانیٹر کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت کے سینیئر سفارت کار مارک اسمتھ نے کہا کہ مجھے برطانیہ کی طرف سے صیہونی حکومت کو ہتھیاروں کی فروخت کے عمل نے بہت متاثر کیا، میرا خیال ہے کہ موجودہ نامساعد حالات میں کہ جہاں غزہ کے جنگ جنگ سے پریشان ہیں، اس عمل کا کوئی جواز نہیں ہے، اس لئے میں نے وزارت خارجہ میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

اسمتھ افریقہ میں برطانوی دفتر خارجہ کے پروگراموں کے ڈائریکٹر ہیں، انہوں نے اپنے استعفیٰ کی وجہ برطانوی حکومت کا اسرائیل کے جرائم میں تعاون بتائی ہے۔

اپنے استعفیٰ کے ایک حصے میں انہوں نے لکھا: میرے لیے اس وزارت میں ایک طویل مدت تک خدمت کرنے کے بعد استعفیٰ دینا بہت مشکل تھا، لیکن میں مزید اپنے فرائض کو انجام نہیں دے سکتا، کیونکہ یہ وزارت اسرائیل کے جنگی جرائم میں ملوث ہے۔

اسمتھ نے اپنے خط کے ایک اور حصے میں اس مسئلے کا ذکر کیا اور کہا: ہم ہر روز دیکھ رہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے اور بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کر رہاہے۔

اس کے بعد انہوں نے صیہونی حکومت کے فوجیوں کی طرف سے غزہ کے عوام کے خلاف اپنے جنگی جرائم کو فلمانے والی ویڈیوز کا حوالہ دیتے ہوئے اس نکتے پر تاکید کی کہ صیہونی حکومت کے اعلیٰ حکام اور اس حکومت کی فوج نے فلسطین میں نسل کشی کے لیے ان کے اقدام کی حمایت کی، اور شہریوں کی املاک کی لوٹ مار، عصمت دری اور فلسطینی قیدیوں پر تشدد کے حوالے سے فوجیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی تاکید کی کہ اسرائیل کی طرف سے 80 فیصد فلسطینی شہریوں کو بے گھر کرنے کا اقدام جنگی جرم ہے ، ان حالات میں برطانیہ کو ہتھیاروں کی فروخت کے عمل کو جاری رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے پھر بھی اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانوی حکومت نے گزشتہ سال 7 اکتوبر سے مئی کے آخر تک صیہونی حکومت کو ہتھیاروں اور فوجی ساز و سامان کی فروخت کے 100 سے زائد لائسنس جاری کیے ہیں۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .