حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ سید جواد نقوی نے مسلمانوں کی حالت زار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی کٹی لاشوں سے بلند ہونے والی "یا اھل المسلمین" کی فریادیں بھی مسلمانوں کے ضمیر کو بیدار نہیں کر پا رہیں، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان سب کو معلوم ہے کہ جو شخص مظلوم کی مدد کے لیے اُٹھنے والی پکار سن کر خاموش رہے، وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
انہوں نے قرآن مجید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امت اسلامیہ کی اتنی بڑی جمعیت کے ناکارہ ہو جانے کی وجہ ان میں خباثت یعنی ملاوٹ کا آجانا ہے۔
جامعہ عروۃ الوثقی کے سربراہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مؤمنین میں طیب اور خبیث کو علٰیحدہ کرنے کا عمل خدا کا ایک جاری قانون ہے جس کے لئے ابتلاء اور آزمائش کا نظام مقرر ہے اور یہ آزمائش آج غزہ کے ذریعے ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا کربلا میں اللہ نے امام حسینؑ کے قیام کے ذریعے خبیث اور طیب میں فرق واضح کیا اور خاذلین کے خاموش و لاتعلق طبقے کو بھی بے نقاب کرتے ہوئے ظالمین اور خبیثین کی صف میں لا کھڑا کیا۔
علامہ سید جواد نقوی نے کہا کہ جن دلائل کی بنا پر اس وقت امام حسینؑ کی نصرت سے گریز کیا گیا، لیکن پھر بھی مقدس و محترم بنے رہے آج وہی مسلمانوں کا پورا دین بن چکا ہے۔ عرب ممالک اسی مذہب خذل و ذلت کو اپنائے ہوئے ہیں جہاں سے ظلم کے خلاف کوئی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔
انہوں نے کہا کہ جو لوگ طیبین میں شامل ہونا چاہتے ہیں، ان کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ خبیثوں سے الگ ہو کر اپنی شناخت واضح کریں تاکہ اللہ کے وعدے ان کے حق میں پورے ہوں، جیسے یمن، لبنان، ایران، عراق اور دیگر مقامات پر مومنین نے اپنی صفیں جدا کر کے غزہ کے مومنین کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ امتیاز حاصل کیا ہے۔
حجت الاسلام سید جواد نقوی نے کہا کہ اس معرکے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ طیب اور خبیث کے درمیان فرق واضح ہو جائے گا، بصورت دیگر، جیسے کوفہ کے خاذلین نے توبہ کی مگر وہ کارگر نہ ہوئی، آج بھی نصرت کے وقت پر خاموشی برتنے والوں کی توبہ بے اثر ہو گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ اللہ خاذلین کو بھی ان کے حال پر نہیں چھوڑے گا اور ان پر ان سے بھی بڑھ کر ظالمین کو مسلط کر دے گا۔