حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، نئے وقف قانون کے خلاف دہلی کے تال کٹورہ اسٹیڈیم میں مسلم پرسنل لاء بورڈ سمیت ملک بھر کی ملّی تنظیموں کی طرف سے تاریخی احتجاجی جلسہ منعقد ہوا، جس میں نامور سیاسی، مذہبی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔

مجلسِ علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا سید کلب جواد نقوی نے اپنے خطاب میں امن اور اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ جس طرح مہاتما گاندھی نے اپنے وقت کی ظالم اور جابر انگریز سرکار کو ’اَہنسا‘ کے ذریعے شکست دی تھی، ہم بھی بغیر کسی ہتھیار کے موجودہ حکومت کو شکست دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا نام اتحاد ہے، ہمیں ہر محاذ پر کامیابی کے لئے متحد ہونا ہوگا۔
مولانا نے کہا کہ ہمیں اپنی طاقت کو کسی فرقے یا مذہب کے خلاف نہیں، بلکہ فرقہ پرستی اور مذہبی جنون کے خلاف استعمال کرنا ہے۔
انہوں نے علامہ اقبال کے شعر کی روشنی میں کہا کہ جب مرد مؤمن کی نگاہ سے تقدیریں بدل سکتی ہیں تو حکومت کیا چیز ہے۔
انہوں نے مجلسِ اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اویسی صاحب کے طرز پر قانونی لڑائی لڑنا ہوگی اور دفاعی انداز چھوڑنا ہوگا، یہ دفاع کا وقت نہیں ہے، بلکہ حملہ آور ہونے کا وقت ہے اور اس راہ میں پہاڑوں سے زیادہ مضبوطی کی ضرورت ہے ان شاءاللہ کامیابی ضرور ملے گی۔
مولانا نے کہا کہ ابھی نئے وقف قانون کے نفاذ کو زیادہ دن نہیں گذرے، لیکن لکھنؤ کی مسجدوں میں پولیس جا کر کاغذات مانگ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دیکھتے دیکھتے پچیس سالوں کے اندر غیر قانونی طور پر سینکڑوں مندر بن گئے ہیں، جن کی جانچ کا مطالبہ کرنا چاہیے، اس سلسلے میں ایک قانونی سیل ہونا چاہیے جو اس راہ میں کام کرے؛ اوقاف کی زمینوں پر لاتعداد مندر بنائے گئے ہیں جس کی ڈھیروں مثالیں لکھنؤ میں موجود ہیں، حسین آباد ٹرسٹ کی زمینوں پر مندر بن گئے ہیں، کربلا تال کٹورہ کے راستے میں حال ہی میں کتنے مندر بن گئے ہیں جو غیر قانونی ہیں، ان سب کی جانچ کا مطالبہ کرنا چاہیے، تاکہ شرپسندوں کے حوصلے پست ہوسکیں۔
مولانا کلب جواد نقوی نے مزید کہا کہ اب تو ہر مسجد میں مندر تلاش کیا جا رہا ہے اور ہر فوارے میں شیولنگ نظر آرہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ کوئی کوتوالی، تھانہ اور سرکاری عمارت ایسی نہیں ہے جہاں مندر نہیں بنا ہے، کیا یہ حق فقط ہندوئوں کو حاصل ہے کہ وہ سرکاری زمینوں پر اپنی عبادت گاہ تعمیر کریں؟ اگر سرکاری زمینوں پر مندر بن سکتے ہیں تو پھر دیگر مذاہب کی مذہبی عبادت گاہیں کیوں نہیں بن سکتیں؟ اس کے لیے تحریک چلانے کی ضرورت ہے، تاکہ عوام میں بیداری پیدا ہو سکے۔

مولانا نے مزید کہا کہ ہم نے ہمیشہ اوقاف کے تحفظ کے لیے سرکار کے خلاف لڑائیاں لڑی ہیں، جس میں ہماری قوم کے لوگوں نے قربانیاں دی ہیں؛ لکھنؤ میں بڑی بڑی سرکاری عمارتیں اوقاف کی زمینوں پر ہیں جن میں اندرابھون اور نہرو بھون جیسی عمارتیں شامل ہیں ۔
مولانا نے اپنے خطاب میں کہا کہ سرکار نے وقف بل پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیاہے کہ غریبوں کی فلاح کے لئے ہم یہ قانون لا رہے ہیں، مگر ہم نے یہ دیکھا کہ جتنے اوقاف سرکار کی نگرانی میں وہاں سے عوام کی فلاح کے لئے کوئی کام نہیں ہوا؛ لکھنؤ کے حسین آباد ٹرسٹ سے ایک روپیہ غریبوں کی فلاح کے لئے خرچ نہیں ہوا۔جب کہ یہ ٹرسٹ بھی ضلع مجسٹریٹ کی نگرانی میں ہے ۔اگر اوقاف کو برباد کرنا ہے تو سرکار کی نگرانی میں دیدیا جائے، ڈی ایم کی نگرانی میں ابھی جتنے اوقاف ہیں وہاں صرف بدعنوانی ہوئی ہے جس کی ایک مثال حسین آباد ٹرسٹ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس قانون کا ایک بدترین پہلو یہ ہے کہ جتنی عمارتیں آثار قدیمہ میں شامل ہیں اُن سب کو وقف سے ہٹا دیا گیا ہے ۔یہ ہم قبول نہیں کریں گے ۔نہ جانے کتنی مسجدیں، امام باڑے اور درگاہیں آثار قدیمہ کے ماتحت آتی ہیں وہ سب وقف سے ہٹ گئی ہیں، اس سے زیادہ دھاندلی اور کیا ہوگی؟










آپ کا تبصرہ