۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
سید ساجد علی نقوی
علامہ سید ساجد علی نقوی

حوزہ/علامہ سید ساجد علی نقوی نے عالمی یوم امن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا کہ صرف ایک دن مختص کرنے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوگا اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی اٹھانا ہونگے، جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر اور مشرق وسطیٰ میں مسئلہ فلسطین عالمی اداروں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ انسانی زندگی اور امن دنوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے‘ قرآنی احکام اور آفاقی اسلامی تعلیمات کی رو سے خوف کو دور کرنا اور امن کا قیام حکومتوں کی ذمہ داری قرار پایا ہے چنانچہ صحت اور امن کو بڑی نعمتیں کہا گیا اسی امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑ نے محروم و مظلوم طبقات کو امن کی فراہمی حکومتوں اور امراءکی بنیادی ذمہ داری گردانا ہے۔اگر امن نہ تو زندگی محض بوجھ ہے۔یہ امر حیرت انگیز اور باعث تعجب ہے کہ جو مسلم ممالک اسلامی تعلیمات کے داعی ہونے کے دعویدار ہیں وہ بدی کی قوتوں کے آلہ کار بن کر غیر مسلم ممالک کے مقابلے میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مثالی امن قائم کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ انسانی زندگی صرف اسی صورت میں آسودہ و خوشحال ہوگی جب امن و آشتی کا دور دورہ ہوگا وگرنہ عدم امن کی صورت زندگی تلخ اور مشکل تر ہوجائے گی لہذا انسانوں نے زندگی گزارنے کے لئے جو اصول و ضوابط طے کررکھے ہیں ان پر مکمل عمل درآمد سے امن کا قیام ممکن ہے جنگیں کبھی مسائل کا حل نہیں ہوتیں، استعماری قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کےلئے ریاستوںکو ریاستوں سے اور عوام کو عوام سے لڑانے کی سازشیں کرتی ہیں ، امت مسلمہ کو سمجھنا ہوگا کہ ایک کے بعد دوسرا ملک اس سازش کا شکار ہورہاہے، جن ممالک کے پاس وسائل ہیں انہیں بیرونی جارحیت پر آمادہ کیا جاتاہے اور جو ممالک ترقی پذیر ہیں وہاں داخلی عدم استحکام پیدا کرنے سازشیں کی جاتی ہیں، آج تک نام نہاد عالمی ممالک نے ظلم کے خلاف آواز بلند نہیں بلکہ اپنے مقاصد کی خاطر انسانیت سمیت بنیادی حقوق تک روند ڈالے ، کشمیر و فلسطین کے مظلوم مسلمان طاقت ور مسلم ریاستوں کی جانب دیکھ رہے ہیں، کاش مسلم قوم بھی خواب غفلت سے جاگے ۔

 علامہ سید ساجد علی نقوی نے عالمی یوم امن کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا کہ صرف ایک دن مختص کرنے سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوگا اس سلسلے میں عملی اقدامات بھی اٹھانا ہونگے، جنوبی ایشیا میں مسئلہ کشمیر اور مشرق وسطیٰ میں مسئلہ فلسطین عالمی اداروں کی کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے جبکہ دوسری جانب حالیہ کشیدہ صورتحال کے بعد ایک مرتبہ پھر اس خطے پر خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں عراق اور افغان جنگ کے بعد اثرات پوری دنیا سمیت جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ پر پڑے جس سے افغانستان اور عراق کے ساتھ ان کے ہمسائیہ ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوئے،یہ جنگیں بھی ایک سازش کے تحت مسلط کی گئیں اور اب ایک نئی گیم تیار کی جارہی ہے۔ دنیا اور باالخصوص اسلامی دنیا کے سنجیدہ اور با اختیار افراد کو سمجھنا ہوگا کہ جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں بلکہ خود ایک مسئلہ ہوتی ہیں استعماری قوتیں اپنے مقاصد کے حصول کےلئے ایک ریاست کو دوسری سے لڑواتی ہیں اور بعض مقامات پر عوام کو عوا م سے لڑانے کی سازشیں کی جاتی ہیں ۔

قائد ملت جعفریہ پاکستان علامہ سید ساجد علی نقوی کا مزید کہناتھا کہ پاکستا ن میں بھی داخلی طور پر عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی گئی، عوام میں دوریاں بڑھانے کی سازش ہوئی مگر ہم نے اسے اتحاد اور باہمی بھائی چارے کے ساتھ کامیاب نہیں ہونے دیا او ر دنیائے اسلام میں ایک منفرد مثال قائم کی۔انہوںنے کہاکہ 9/11 سے پہلے بھی سازشیں ہوتی رہیں البتہ اس کے بعد اس سازشوں میں یکدم تیزی آئی جس کے بعد افغانستان اور پھر عراق پر چڑھائی گئی، بعدازاں شام میں خونی کھیل کھیلا گیا اور اس وقت یمن سے لیبیا تک اور افغانستان سے نائیجریا تک جنگ ، آگ اور خون ہی خون نظر آتاہے۔ سنجیدہ فکر افراد کو اس جانب توجہ دینا ہوگی اور مزید کسی نئی سازش سے بچنا ہوگا بصورت دیگر یہ نہ صرف عالمی امن کےلئے بڑا خطرہ ہوگا بلکہ اسلامی دنیا میں بھائی چارے اور وحدت کی فضا کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس وقت کشمیر، فلسطین سمیت مظلوم مسلمان طاقت ور مسلمان ملکوں کی جانب دیکھ رہے ہیں ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .