۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
عبدالفتاح نواب

حوزہ / حج و زیارت کے امور میں  ولی فقیہ  کے نمائندہ نے  ، امام راحل کی تحریک اور افکار و سیرت میں نہضت عاشورا کے آثار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ راستے کو واضح ، اور دشمن  اور ان کی دشمنیوں کو اچھی طرح سے درک کرنا اور سمجھنا امام راحل کے افکار میں سے ایک تھا ،جو کہ انہیں امام حسین علیہ السلام سے وراثت میں ملا تھا۔

تہران سے حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حجت الاسلام والمسلمین سید عبد الفتاح نواب نے پیر کی شام مرقد امام خمینی میں  "افکار امام خمینی میں نہضت عاشورا کے آثار " کے عنوان سے برگزار ہونے والی آنلائن کانفرنس سے خطاب کے دوران رہبر معظم انقلاب کی دشمنوں کی شناخت اور انکے مقابلے میں ہوشیاری اور استقامت کے بارے میں کی جانے والی گفتگو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ تاکید کرتے ہیں انکے بر خلاف جو دشمن کے مقابلے میں قیام نہ کرنے کو عقل کی پختگی سمجھتے ہیں ،امام راحل اپنی پختہ عقل کی بنیاد پر دشمن کے  مقابلے میں قیام نہ کرنا اور ان سے نرمی کے ساتھ پیش آنے کو ،دشمن کو زیادہ فرصت دینے کے مترادف سمجھتے تھے. 
حج و زیارت کے امور میں  رہبر معظم انقلاب کے نمائندے نے یہ بیان کرتے ہوئے  امام راحل اپنی بابرکت زندگی کے دوران ایک پہاڑ کی طرح دشمنوں کے خلاف کھڑے رہے  ، مزید کہا کہ راستے کو واضح ، اور دشمن  اور ان کی دشمنیوں کو اچھی طرح سے درک کرنا اور سمجھنا امام راحل کے افکار میں سے ایک تھا ،جو کہ انہیں امام حسین علیہ السلام سے وراثت میں ملا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ : امام حسین علیہ السلام نے مروان کو پوری سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا اور ذرا بھی پیچھے ہٹے بغیر فرمایا :«انالله و انا الیه راجعون» اور پھر امام علیہ السلام نے کہا کہ اسلام کی فاتحہ پڑھنا چاہیے جب امت کو یزید جیسے حکمران ملے جب کہ وہ بدکار اور فاسق شخص ہے۔
حجت الاسلام والمسلمین نواب نے ، سختیوں اور شہادت کی قبولیت اور امام حسین (ع) کی زندگی میں ذلت کے کوسوں دور ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ : امام علیہ السلام نے محمد حنفیہ کے جواب میں فرمایا : اگر مجھے دنیا میں کوئی پناہ بھی نہیں ملے پھر بھی  میں یزید ابن معاویہ کی بیعت نہیں کرونگا۔ 
انہوں نے کہا کہ : امام راحل نے جبری طور پر عراق سے بے دخل کرنے اور کویت میں داخل ہونے سے روکنے کے بعد ، فرمایا کہ : اہم کام یہ ہے کہ خدائی فرض کو انجام دیں ، اور سب سے اہم چیز اسلام اور مسلمانوں کے مفادات ہیں۔ ایک دوسری جگہ  آپ نے فرمایا کہ : میں جہاں بھی جاؤں ، میں بولتا رہونگا،ایک  ہوائی اڈے سے دوسرے ہوائی اڈے اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کے دوران میں دنیا کے سامنے یہ اعلان کرتا رہونگا کہ دنیا کے سارے ظالم ایک دوسرے سے منسلک ہو چکے ہیں تاکہ دنیا کے مظلوموں کی آواز کو دبایا جا سکے. 
اپنی تقریر کے ایک  حصے میں ، ایرانی حجاج کے سربراہ نے کہا کہ امام راحل ، امام حسین (ع) کی پیروی کرتے ہوئے ، یقین رکھتے تھے کہ جس قوم کو شہادت ملی ہے ، وہ اسیر نہیں ہوتی ، جیسا کہ سید الشہداء (ع) نے کہا تھا: «هیهات مناالذله»؛ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بھی امام بزرگوار کے ایک قول کا حوالہ دیتے ہوئے اس بات پر زور دیا ہے کہ جو قوم خدا کی راہ میں شہادت کے خطرہ کو خوش آمدید کہتی ہو ، اور اس سے سعادت اور ایک بڑی کامیابی سمجھتی ہو  ، اس کے خلاف کوئی طاقت مانع ہو ہی نہیں سکتی ،اور وہ ملت ہمیشہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھتی ہے.
انہوں نے فلاح ، نجات اور اتمام حجت  کو حضرت امام حسین (ع) کی زندگی کے آداب و اصول قرار دیا اور کہا کہ  امام حسین (ع) عاشورا کے واقعے سے پہلے اور حتی کہ جنگ کے میدان میں بھی نصیحت کرتے رہے ، حالانکہ آپ نے دیکھا اور سنا ہے کہ امام راحل بھی شاہ کو نصیحت کرتے تھے اور انہیں مختلف جگہوں پر متنبہ بھی کرتے تھے.

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .