حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، لاہور/ علی مسجد جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاؤن میں نماز جمعہ کے خطبہ میں آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا کہ قرآن مجید میں حضرت موسیٰ ؑ کے واقعات کئی مقامات پر بیان کیے گئے ہیں جن میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ جس بچے کے دنیا میں آنے اور اس کی زندگی کے خوف سے کثیر تعداد میں بچوں کو قتل کیا جاتا رہا، وہی بچہ یعنی حضرت موسیٰ ؑ نہ صرف پیدا ہوۓ بلکہ اُسی فرعون کے گھرمیں پروان چڑھے اور حکم ِالٰہی سے تمام کام انجام دیے۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید میں ایک مقام پر حضرت موسیٰ ؑ کی چند دعائیں ذکر کی گئی ہیں۔پہلی یہ کہ ”رب اشرح لی صدری“ میرا سینہ کشادہ کر دے۔ یعنی حوصلہ، برداشت،صبر و تحمل کی قوت عطا فرما۔اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تبلیغ کیلئے غصہ، لڑائی، تندی و تیزی نہیں بلکہ صبر و تحمل و نرم مزاجی درکار ہوتی ہے۔اِسی لیے حضور ؐ کے لیے بھی فرمایا گیا کہ اللہ کی رحمت سے آپ نرم دل ہیں۔حضرت موسیٰ ؑ نے دوسری دعا یہ مانگی ”ویسّرلی امری“ میرے لیے آسانی پیدا فرما۔زندگی کے امور میں آسانیاں خدا کی طرف سے پیدا کی جاتی ہیں۔اس کے بعد دعا مانگی ”واحلل عقدۃ من لسانی“میری زبان کی گِرہ کھول دے۔ روایات کے مطابق اس کا پس منظریہ ہے کہ بچپن میں انہوں ؑ نے فرعون کی داڑھی میں ہاتھ ڈالا تو اُسے شک گزرا کہ یہ وہی بچہ ہے جو میرے لیے خطرہ ثابت ہوگا۔چنانچہ ُانہیں قتل کرنا چاہا لیکن آسیہ نے روکاکہ بچے ایسے ہی کیا کرتے ہیں۔مگر اسے پھر بھی اطمینان نہ ہوا اور آزمائش کیلئے انگارے سامنے رکھے۔ حضرت موسیٰ ؑ نے انگارا اٹھا کر منہ میں ڈالا جس کے اثر سے زبان میں لکنت پیدا ہو گئی تھی۔اس کے بعد دعا مانگی ”واجعل لی وزیراً من اہلی“میرے اہل میں سے ہارون کو میرا وزیر بنا دے۔”واشدد بہ ازری“اُسے میرا قوت ِ بازو قرار دے اور اسے میرے معاملات میں شریک فرما دے یعنی نبی بنا۔اس کے بعد فرمایا تاکہ ہم دونوں تیری زیادہ سے زیادہ تسبیح کر سکیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ اللہ کا کثرت سے ذکر درحقیقت قوت و طاقت کی علامت ہے۔جو شخص خدا کی طرف متوجہ رہتا ہے وہ گناہ، معصیت اور غلطیاں نہیں کرتاکیونکہ اسے علم ہے کہ اللہ ہر وقت دیکھ رہا ہے۔اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ نے خدا سے عرض کی کہ ہم تو تیرے سامنے ہیں اور ہماری ہر بات ہر حالت تیرے سامنے ہے۔ان دعاؤں کے جواب میں اللہ نے فرمایا یقینا آپ نے جو کچھ مانگایعنی آپ کی خواہشیں،دعائیں قبول کر لی گئیں۔ اللہ کی طرف سے انہیں مزید آگاہ کیا گیا کہ آپ پر تو اس سے پہلے بھی پیدائش کے وقت سے کافی احسانات کیے گئے ہیں۔آپ کی پیدائش کے وقت آپ کی والدہ کو الہام کیا کہ کس طرح آپ کو تابوت میں بند کر کے دریا بُرد کرے۔اس سے قبل سخت چیکنگ کے باوجود کسی بھی دایہ پر آپ کی والدہ کا حمل ظاہر نہ ہونا بھی اللہ کی قدرت سے تھا۔تابوت(بکس) کو پانی میں ڈالنا بھی بہت بڑا خطرہ تھا کہ پانی میں تو اکثر چیزیں ڈوب جاتی ہیں۔تابوت فقط میت کو بند کرنے کیلئے استعمال نہیں ہوتا بلکہ تاریخ ِ انبیاء ؑ میں اس کے کئی استعمال ذکر کیے گئے ہیں۔حضرت موسیٰ ؑ کی پیدائش کے بعد دایہ کے دل میں ان کی محبت، تابوت کھولنے پر آسیہ کے دل میں ان کی محبت اور پھر فرعون کے دل میں بھی ان کی محبت پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کا خصوصی کرم و انتظام تھا۔جب اللہ کوئی کام انجام دینا چاہے تو کسی کامنصوبہ، حیلہ و مکر کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔تابوت کے ساتھ ساتھ حضرت موسیٰ ؑ کی بہن کچھ فاصلہ پر چلتی رہی۔ فرعون کے محل کے قریب پہنچی اور جب حضرت موسیٰ نے کسی بھی عورت کا دودھ قبول نہ کیا تو انہیں مشورہ دیاکہ وہ کسی عورت کو بلاتی ہے۔اس طرح اپنی والدہ کو لے گئی جن کا دودھ حضرت موسیٰ ؑ نے قبول کیا۔ دودھ پلانے کے بہانے اکثر وہ انہیں اپنے گھر بھی لے آتیں۔اِن واقعات میں اللہ کی قدرت اور حاکمیت کی بہت نشانیاں ہیں۔اس کے بعد حضرت موسیٰ ؑ کا امتحان بھی لیا گیا۔ مصر سے نکلنا،مَدْیَنْ پہنچنا اور بعد کے واقعات۔۔۔ امتحانوں میں کامیاب ہونے کے بعد انہیں نبوت عطا کی گئی اور ہارون کے ساتھ فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا گیا۔ارشاد ہواکہ میں تم دونوں کے ساتھ ہوں،سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ یہ دونوں فرعون کے پاس گئے اور”السلام علیکم“ نہیں کہا جس کا مطلب سلامتی کی خواہش و دعا ہے بلکہ فرمایا ”والسلام علیٰ من اتبع الہدیٰ“ ہدایت کی پیروی کرنے والوں پر سلام ہو۔حضرت موسیٰ ؑ کے واقعات میں بہت زیادہ عبرتیں اور سبق ہیں جن پر غور کرنے سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔