حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سیہون شریف/ مجلس وحدت مسلمین سندھ کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ باقر عباس زیدی نے شہدائے سیہون کی چوتھی برسی کے موقع پر درگاہ سیہون شریف میں منعقدہ شہداء کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سانحہ سیہون پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے جب کم و بیش سو زائرین کو دہشتگردی کی بھینٹ چڑھا دیا گیااور متعدد آج تک زخمی ہیں۔شہداء کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔اس موقع پرعلامہ مختار امامی،علی حسین نقوی،،مولانا رضا محمدسعیدی،علامہ کلب مہدی،علامہ عطا حسین چانڈیو،شفقت حسین،ندیم جعفری،اسدکربلائی،عابد کھوکھر،حیدر زیدی سمیت مقامی عزاداروں و ایم ڈبلیو ایم کارکنان کی بڑی تعداد موجود تھی۔
علامہ سید باقر عباس زیدی نے کہا کہ چار سال گزرنے کے بعد وارثان شہداء سے کیے گئے حکومتی وعدے پورے نہ ہونا انتہائی افسوسناک امر ہے جو قابل مذمت ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے خوشنما وعدے کر کے عوام کو ہمیشہ دھوکہ دیا ہے۔ سندھ حکومت کی جانب سے شدت پسندوں کے ساتھ مفاہمانہ رویہ قومی سلامتی اور ملکی امن کے لیے شدید خطرہ ہے۔سیاسی مفادات کے حصول اور اپنی حکومت بچانے کے لیے انتہا پسندوں سے دوستی کا کھیل دانشمندی کا تقاضہ نہیں۔ حکومت ملک دشمن عناصر کو اپنی صفوں سے دور رکھے۔فرقہ واریت میں ملوث افراد کو حکومتی چھتری کا میسر ہونا ملت تشیع کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا ملک و قوم کی تعمیر و ترقی اور امن کو بحال رکھنے میں شیعہ قوم نے ہمیشہ ایک حقیقی محب وطن کا کردار ادا کیا ہے۔انصاف کا تقاضہ تو یہ بنتا تھا کہ حکومت ہماری حب الوطنی کو تسلیم کرتے ہوئے حوصلہ افزائی کرتی لیکن حکومتی ردعمل ہمیشہ اس کے برعکس رہا۔
کانفرنس سے خطاب میں ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علی حسین نقوی کا کہنا تھا کہ درگاہ لعل شہبازقلندر میں خودکش حملہ وہ المناک سانحہ ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔دہشت گردوں نے ایک ولی اللہ کے مزار کو خاک و خون میں نہلا کر اس بات کا ثبوت دیا کہ ان دہشت گردوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ ولی اللہ کے مزارات امن و محبت کے مراکز ہیں۔جہاں اتحاد و اخوت اور امن کا درس ملتا ہے۔جو مذموم عناصر ملک عبادت گاہوں اور شعائر اللہ کا نشانہ بنا کر ملک میں انتشار اور بد امنی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے خلاف بھرپور کاروائی کی جانی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خاطر فیصلہ کن مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے۔ تاہم دہشت گردوں کے لیے درد دل رکھنے والے سہولت کار اوران سے فکری ہم آہنگی رکھنے والے عناصر وطن عزیز کے لیے مستقل خطرہ ہیں۔ان کے خلاف گھیرا تنگ کر کے ہی ملک و قوم کو امن کی ضمانت دی جا سکتی ہے۔
کانفرنس سے خطاب میں علامہ مختار امامی کا کہنا تھا کہ سانحہ سہون چار سال گزرنے کے باوجود واقعے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہر ے میں نہیں لایا گیا۔مظلومین کو انصاف دلانے کا مقدمہ اب تک التواء کا شکار ہے جس سے ملکی عوام میں مایوسی پائی جاتی ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد پوری قوم کو اطمنان تھا کہ اس ملک کو اب دہشت گردی کے عفریت سے چھٹکار ا حاصل ہو جائے گا لیکن بدقسمتی سے چند مخصوص سانحات کے ذمہ داروں کے خلاف فیصلوں کے علاوہ کوئی ایسا قابل ذکر فیصلہ نہ ہوا جس سے شہد ا کے لواحقین کی داد رسی ہوئی ہو۔سندھ حکومت کی طرف سے شہدا کے خاندانوں کے ساتھ کیے گئے وعدے بجا طورپر پورے نہیں کیے گئے۔سانحہ سہون،سانحہ جیکب آباد اورسانحہ شکار پور کی طرح متعدد سانحات کا شکار ہونے والو ں کے غمزدہ وارثان آج بھی انصاف کے متلاشی اور حکمرانوں کی بے حسی پر سراپا احتجاج ہیں۔حکومت عوام کا خون چوسنے میں مصروف ہے۔ سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ شہدائے سانحہ سہون کے وارثان سے کئے ہوئے نوکریوں کے وعدوں کو پورا کرے۔ التواء کے شکار ا مقدمے کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے اورسانحہ سہون میں ملوث دہشتگردوں کو سر عام پھانسی دی جائے۔سندھ بھر میں بے گناہ ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے علماء و عمائدین کے خلاف قائم مقدمات ختم کئے جائیں اور انہیں فورتھ شیڈول سے نکالا جائے۔طویل مدت سے جبری گمشدہ شیعہ افراد کو جلد از جلد بازیاب کیا جائے۔
کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دیگر مقررین نے سندھ حکومت کی ناقص انتظامی کارکردگی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے حکومتی نا اہلی قرار دیا ہے۔ دریں انثاء مجلس وحدت مسلمین کے رہنماوں نے سیہون شریف درگاہ میں حضرت لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری دی اور چادر چڑھائی۔ دہشتگردی کا نشانہ بنے والے شہداء کی یا د میں شمع روشن کی گئی، کانفرنس کے اختتام پر مقامی ماتمی سنگتوں کی جانب سے ماتم داری ہوئی اورشہدا کی بلندی درجات و اہل خانہ کے صبر کے لیے دعا بھی کی۔