۶ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۶ شوال ۱۴۴۵ | Apr 25, 2024
دیدار رئیس جمهور با جمعی از علمای اهل تسنن

حوزہ / صدر مملکت ایران نے ملکی تاریخ میں اپنے ہم وطنوں اور سنی علماء کے مقام کو اہم قرار دیتے ہوئے کہا: برطانوی شیعہ اور امریکی سنی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں عالم اسلام کے اتحاد کے خلاف ہیں۔ جبکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے اتحاد امت ایک دینی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی تہران کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی صدر حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی نے سنی علماء اور فضلاء کے ایک گروپ سے ملاقات کی ہے۔

اس ملاقات میں حجۃ الاسلام و المسلمین سید ابراہیم رئیسی نے عوام کے دینی مسائل سمیت ان کے معاشی مسائل کے حل کے لئے حکومت کی سنجیدہ کوششوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا: ہم ان موجودہ مسائل اور پریشانیوں سے آگاہ ہیں جو لوگ علماء کرام کے ذریعہ حکومت تک پہنچاتے ہیں اور ان پر متوجہ ہیں اور ان کے حل کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں۔

صدر مملکت نے اپنے خطاب کے ایک اور حصے میں ملک کی تاریخ میں سنی ہم وطنوں اور علماء کے اہم مقام کا ذکر کرتے ہوئے کہا: آپ علماء کرام اور مفکرین کی ملک میں بہت زیادہ خدمات ہیں اور الحمد للہ کئی سالوں سے اسلامی جمہوریہ ایران میں شیعہ اور سنی آپس میں مل جل کر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

انہوں نے بعض اہلسنت علماء کی جانب سے انتظامی عہدوں پر انہیں زیادہ مواقع دینے کی درخواست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: کسی بھی منصب کے لئے اس مقام کے لائق اور شائستہ افراد کا چناؤ انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ ہماری حکومت کا معیار کارکردگی ہے اور میں جس صوبے میں بھی سفر کروں وہاں مقامی افراد کے استعمال اور ان سے استفادہ پر تاکید کرتا ہوں۔

صدر مملکت نے خطے میں بعض تکفیری تحریکوں کے فروغ کا حوالہ دیا اور کہا: ہمیں ملک میں تکفیری اور سلفی افکار کے اثر و رسوخ سے محتاط رہنا چاہیے۔ یاد رہے کہ (رہبر معظم کے فرمان کے مطابق) برطانوی شیعہ اور امریکی سنی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں عالم اسلام کے اتحاد کے مخالف ہیں جبکہ اتحاد اسلامی جمہوریہ ایران کے لیے ایک دینی فریضہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .