حوزہ نیوز ایجنسی کے رپورٹر کے ساتھ انٹرویو میں حضرت معصومہ (س) یونیورسٹی میں علمی کمیٹی کی رکن محترمہ ڈاکٹر مونا جامی پور نے کہا: موجودہ دنیا میں انفارمیشن سوسائٹی اور انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی سے متعلق مسائل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اگرچہ موجودہ دور میں انفارمیشن اور کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے فائدے اور خوبیاں جیسا کہ معلومات میں اضافہ، لوگوں کا باہمی آسان تعامل، تعلیم اور اس کے معیار کا فروغ شامل ہے لیکن کسی بھی صورت میں اس کے منفی اثرات اور نقصانات کو نظر انداز کرنا بھی صحیح نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا: بنیادی طور پر ٹیکنالوجی ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے اگر ہم اس پر صحیح طریقے سے قابو نہ پا سکے تو یہ فوائد کے ساتھ ساتھ سنگین خطرات اور نقصانات کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
محترمہ جامی پور نے کہا: ماڈرن میڈیا اور خاص طور پر سوشل نیٹ ورکس اپنی خصوصیات اور صلاحیتوں کی وجہ سے اور ان کے استعمال میں صارفین پر پابندیاں نہ ہونے کی وجہ سے نقصان کا باعث بن سکتے ہیں جیسے کہ فراڈ، جعلی صارف اور فیک اکاؤنٹس کا ہونا وغیرہ، جبکہ دوسری طرف بدقسمتی سے ان میں سے بہت سے جدید ذرائع ابلاغ بدعنوانی، ثقافتی اور اخلاقی مسائل کی خرابی کا پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔
یونیورسٹی کے اس لیکچرر نے مزید کہا: جدید ذرائع ابلاغ اور سوشل نیٹ ورکس کی قابلیت اوروسعت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے لیے سب سے پہلے تو صحیح منصوبہ بندی اور پالیسی کی جانی چاہیے اور دوسری طرف کوشش کی جانی چاہیے کہ اس سے معاشرے میں ایک مثبت اور سازگار ثقافت کو فروغ دیا جا سکے۔
انہوں نے کہا: جدید ذرائع ابلاغ کے میدان میں عوامی بیداری اور بصیرت کی ضرورت ہے جس میں یقیناً ثقافتی اور میڈیا سے مربوط اداروں کی ذمہ داری انتہائی سنگین ہے۔
حضرت معصومہ (س) یونیورسٹی میں علمی کمیٹی کی رکن نے کہا: رہبر معظم انقلابِ اسلامی کے بیانات کو مشاہدہ کریں وہ مختلف شعبوں میں ہمیشہ عوام کی بھلائی کو مدنظر رکھتے ہیں۔ اگر یہی نظریہ تمام حکومتی عہدیداروں میں بھی موجود رہے تو ہم خاص طور پر ثقافتی میدان میں انتہائی مثبت اور مبارک پیشرفت کا مشاہدہ کریں گے۔
محترمہ جامی پور نے آخر میں کہا: اہم بات یہ ہے کہ ثقافت کی تعمیر معاشرے کی مختلف طبقات میں انجام پائے نیز ثقافتی اور میڈیا کے میدانوں میں کامیابی کے راز کو جانتے ہوئے لوگوں بالخصوص مذہبی اور انقلابی نوجوانوں کی صلاحیتوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے۔