۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
تصاویر / دیدار معاون رئیس جمهور و رئیس بنیاد شهید و امور ایثارگران با آیت الله العظمی نوری همدانی

حوزہ/ آیت اللہ نوری ہمدانی نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ اسلام کے تمام علمائے کرام اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں اور ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ استکبارِ جہاں اور صہیونیت دینِ اسلام کی نابودی کی سازش کر رہے ہیں اور اسلام کے نام پر باطل جیسے وہابیت، داعش اور تکفیری مذاہب، فرقے اور منحرف گروہوں کو وجود بخشا کر دینِ اسلام کو جنگ میں دھکیل رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، کل بروز جمعرات آیت اللہ نوری ہمدانی نے جلسہ گاہِ تہران میں منعقدہ مجمعِ جہانی اہل بیت علیہم السلام کی جنرل اسمبلی کے ساتویں اجلاس سے اہم خطاب کیا جس کا تفصیلی متن مندرجہ ذیل ہے۔

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمدلله رب العالمین و الصلاة و السلام علی سیدنا و نبینا أبی القاسم مصطفی محمد صلی الله علیه و علی اهل بیته الطیبین الطاهرین سیما بقیة الله فی الارضین و لعن علی أعدانهم أعداء الله اجمعین

حمد و ثناء اس خدا کے لئے مخصوص ہے جس نے مخلوق کو ہدایت کے ساتھ خلق فرمایا اور ہدایت کے چراغ سے ہر اس مخلوق کے راستے کو روشن کیا جسے اس نے خلق کیا اور تمام مخلوقات کو صراط مستقیم پر چلنے کی ہدایت کی اور اس سلسلے میں انبیاء کرام اور اہل بیت علیہم السلام کے کردار کو ہدایت کا قلعہ قرار دیا۔ ایک طرف ان الٰہی ہستیوں کا خدائے تعالیٰ کے ساتھ گہرا تعلق ہے اور بنی نوعِ بشر کے احکام و قوانین کو کائنات کے اس مالک سے لیتے ہیں اور دوسری طرف ان ہستیوں کا لوگوں سے تعلق ہے اور لوگوں کی عقل و فہم کے مطابق ان سے بات کرتے ہیں اور جو کچھ ان پر وحی کی صورت میں نازل ہوتا ہے اسے بھی لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور دلائل و براہین کے ساتھ حق کے راستے کو واضح کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ یہ ہستیاں پاکیزگی، تقویٰ، شائستگی، عہد و پیماں، رأفت اور ایثار کے اعلیٰ درجات پر فائز ہونے کے ساتھ یعنی، عصمت کے درجے پر فائز ہونے کی وجہ سے غلطیوں اور لغزشوں سے دور ہوتی ہیں اور ان کے وجود کو معاشرے کے لئے ایک مہرباں اور مہذب مربی اور ایک دلسوز و ایثار گر معلم کے عنوان سے جانا جاتا ہے۔

دنیا میں کوئی امت یا قوم اس وقت تک وجود میں نہیں آئی جب تک کہ ان میں خدا کی جانب سے کوئی نبی نہ بھیجا گیا ہو۔

خداوند متعال کی جانب سے رسولوں کی بعثت کے بارے میں حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: «فَبَعَثَ فِیهِمْ رُسُلَهُ وَ وَاتَرَ إلَیْهِمْ أَنْبِیَاءَهُ لِیَسْتَأْدُوهُمْ مِیثَاقَ فِطْرَتِ هِ وَ یُذَکِّرُوهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهِ وَ یَحْتَجُّوا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلِیغِ وَ یُثِیرُوا لَهُمْ دَفَائِنَ الْعُقُولِ وَ یُرُ وهُمْ آیَاتِ الْمَقْدِرَةِ مِنْ سَقْفٍ فَوْقَهُمْ مَرْفُوعٍ وَ مِهَادٍ تَحْتَهُمْ مَوْضُوعٍ وَ مَعَایِشَ تُحْیِیهِمْ وَ آجَالٍ تُفْنِیهِمْ وَ أَوْصَابٍ تُهْرِمُ هُمْ وَ أَحْدَاثٍ تَتَابَعُ عَلَیْهِمْ وَ لَمْ یُخْلِ اللَّهُ سُبْحَانَهُ خَلْقَهُ مِنْ نَبِیٍّ مُرْسَلٍ أَوْ کِتَابٍ مُنْزَلٍ أَوْ حُجَّةٍ لازِمَةٍ أَوْ مَحَجَّةٍ قَائِمَةٍ».

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو لوگوں کے درمیان مبعوث کیا اور انہیں یکے بعد دیگرے لوگوں کی طرف بھیجا تاکہ لوگوں سے ان عہد و پیمان کو پورا کرنے کے لئے کہا جائے جو کہ ان کی فطرت میں موجود ہیں، لوگوں کو ان نعمتوں کی یاد دلانے کے لئے جنہیں انہوں نے نظر انداز اور فراموش کر دیئے تھے، لوگوں کے مابین الٰہی احکامات کی دلائل و شواہد کی بنیاد پر تبلیغ کریں، لوگوں کے غافل اور جھوٹی تبلیغات سے متاثر ذہنوں کو بیدار کریں، انہیں آیات الٰہی دکھائیں اور خدا نے اپنے بندوں کو کبھی بھی آسمانی کتاب، پیشوا اور امام سے محروم نہیں رکھا۔

یہ مطلب بھی واضح ہے کہ خدا کے پیغمبروں میں سے کوئی بھی اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے زندہ نہیں رہے گا اور وہ«کُلُّ نَفْسٍ ذائِقَةُ الْمَوْتِ» کے قانون سے مستثنیٰ نہیں ہیں، لہٰذا انہوں نے اپنی زندگی میں ہی اپنے لئے جانشین کا انتخاب کرتے تھے تاکہ ہدایت کی شمع ہمیشہ روشن رہے اور ہدایت کا پرچم ہمیشہ لہراتا رہے۔

پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے بھی ایک طاقتور قوم کی بنیاد رکھی اور خدا کی جانب سے ایک آسمانی کتاب یعنی قرآن مجید لایا اور انسانی زندگی کے لئے ایسے قوانین بنائے جو ہر زمانے کی تمام ضروریات کو پورا کرتے ہوں، ایک طاقتور حکومت تشکیل دی۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اپنے بعد امامت اور خلافت کے موضوع کو نظر میں رکھتے ہوئے اس اہم مسئلے کا اہتمام کیا اور اس کے لئے عظیم اور ان عہدوں کے لئے موزوں انسانوں کے ایک گروہ کی تربیت کی، اپنے بعد بہت سے معاملات میں ہدایت کے عوامل کے بارے میں گفتگو کرتے تھے اور بار بار امامت و جانشینی کے مسئلے پر تاکید کرتے تھے اور اس کا بہترین نمونہ حدیثِ ثقلین ہے جو کہ ایک مستند حدیث ہے۔ «إنِّی تَارِکٌ فِیکُمُ اَلثَّقَلَیْنِ مَا إنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدِی کِتَابَ اَللَّهِ وَ عِتْرَتِی أَهْلَ بَیْتِی وَ إنَّهُمَا لَنْ یَفْتَرِقَا حَتَّی یَرِدَا عَلَیَّ اَلْحَوْضَ».

اور اس کے بعد علمائے کرام کا کردار، انسانی معاشروں کی ہدایت کے لئے مؤثر ترین کردار ہے۔ «مثل العُلَماءِ فی الأرضِ کمَثَلِ النُّجومِ فی السَّماءِ یُهتَدی بِها فی ظُلُمات البَرِّ و البَحرِ» اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ: «إنَّ اَکْرَمَ العِبادِ إلَی اللهِ بَعْدَ الاَنبیاءِ العُلَماءُ».

خصوصی طور پر ہمارے دور میں علمائے کرام کا کردار بہت اہم ہے، کیونکہ عالمی سطح پر استکبارِ جہاں اور کفر انسانوں سے عقلیت کو دور کرنے، ہدایت کے عوامل کو نابود کرنے اور اس کی جگہ تشدد، جبر و استبداد، کمزوری اور ناانصافی لانے کے لئے متحرک ہو چکے ہیں۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: «عُلَمَاءُ شِیعَتِنَا مُرَابِطُونَ فِی اَلثَّغْرِ اَلَّذِی یَلِی إبْلِیسَ وَ عَفَارِیتَهُ یَمْنَعُوهُمْ عَنِ اَلْخُرُوجِ عَلَی ضُعَفَاءِ شِیعَتِنَا وَ عَنْ أَنْ یَتَسَلَّطَ عَلَیْهِمْ إبْلِیسُ وَ شِیعَتُهُ وَ اَلنَّوَاصِبُ أَلاَ فَمَنِ اِنْتَصَبَ لِذَلِکَ مِنْ شِیعَتِنَا کَانَ أَفْضَلَ مِمَّنْ جَاهَدَ اَلرُّومَ وَ اَلتُّرْکَ وَ اَلْخَزَرَ أَلْفَ أَلْفِ مَرَّةٍ لِأنَّهُ یَدْفَعُ عَنْ أَدْیَانِ مُحِبِّینَا وَ ذَلِکَ یَدْفَعُ عَنْ أَبدَانِهِمْ».

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمِ اسلام کے تمام علمائے کرام اپنے مشترکہ دشمن کو پہچانیں اور ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ استکبارِ جہاں اور صہیونیت دینِ اسلام کی نابودی کی سازش کر رہے ہیں اور اسلام کے نام پر باطل جیسے وہابیت، داعش اور تکفیری مذاہب، فرقے اور منحرف گروہوں کو وجود بخشا کر دینِ اسلام کو جنگ میں دھکیل رہے ہیں۔

آج اسلامی اتحاد و وحدت ایک اہم مسئلہ ہے، دشمن امت اسلامیہ میں انتشار پیدا کرکے دین کے نمایاں اصولوں کو تباہ کرنا چاہتا ہے۔

آج مسئلۂ قدسِ شریف اور فلسطین اور اسی طرح کے یمن، شام، افغانستان اور بحرین کے مظلوموں کے قتل عام پر انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کی بے معنی خاموشی کی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں مزید بڑھ چکی ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران، اسلامِ ناب کے اصولوں پر بھروسہ اور قرآن کریم اور اہل بیت علیہم السلام کی عظیم ثقافت سے استفادہ کرتے ہوئے؛ ایک نامور فقیہ اور مجاہد کی قیادت میں وہ شخص جس کے دل میں دنیا کے تمام مظلوموں کا دکھ تھا اور وہ الٰہی مدد سے استکبار جہاں کے خلاف لڑا، یعنی امام خمینی (رح) اسلامی اقدار کے دفاع کے حقیقی علمبردار بن کر تمام مسلمانوں کے اتحاد اور کسی بھی قسم کے مذہبی اختلافات اور فتنہ کی اپنے مذہبی اصولوں کے تناظر میں مذمت کرتے ہیں اور امام راحل کے بعد رہبرِ معظّم انقلابِ اسلامی اس راستے پر گامزن ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی سعادت اسلامی تعلیمات جو حدیث ثقلین کے مطابق قرآن اور اہل بیت (ع) ہیں میں منحصر ہے۔

قم المقدسہ

حسین نوری ہمدانی

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .