۱۳ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۳ شوال ۱۴۴۵ | May 2, 2024
مزاحمت فلسطین

حوزه/ انقلاب اسلامی کے لیے بڑی مشقتیں اٹھانے کے بعد جب رہبر کبیر امام خمینی رضوان اللہ علیه کو ان کے مشن کی تکمیل کا شیرین زمانہ نصیب ہوا، اور انقلاب اسلامی اپنی پختگی کو پہنچ گیا تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ایک سال بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیه نے رمضان کریم کے جمعۃ الوداع کو بطور روز قدس مقرر کیا۔

تحریر: بنت الہدی

حوزه نیوز ایجنسی | انقلاب اسلامی کے لیے بڑی مشقتیں اٹھانے کے بعد جب رہبر کبیر امام خمینی رضوان اللہ علیه کو ان کے عزائم کی تکمیل کا شیرین زمانہ نصیب ہوا، اور انقلاب اسلامی اپنی پختگی کو پہنچ گیا تو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے ایک سال بعد امام خمینی رحمۃ اللہ علیه نے رمضان کریم کے جمعۃ الوداع کو بطور روز قدس مقرر کیا۔ امام خمینی نے اس دن کو فلسطینیوں کی حمایت اور غاصب صیہونیوں سے اظہار برأت کے لئے مقرر کیا۔ تب سے اب تک روز قدس اپنے مکمل حشم کے ساتھ دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں برپا کیا جاتا ہے؛ جس میں جلوسوں، تقریروں، اجتماعات وغیرہ کے ذریعہ فلسطینیوں کے ساتھ حمایت اور صیہونیوں سے علی الاعلان اظہار برأت کیا جاتا ہے۔

امام علی علیہ السلام نے جب مالک ابن اشتر کو مصر کا گورنر مقرر کیا تو ایک خط کے ذریعہ ان سے چند فرامین کہے۔ اسی خط میں امام علی علیہ السلام نے فرمایا تھا: جو خدا کے بندوں پر ظلم کرے گا اس کے دشمن بندے نہیں خود پروردگار ہوگا۔ اسرائیل ایک غاصب، نیز ظالم ریاست ہے۔ اس نے خدا کے بندوں پر ظلم کو اپنا شعار بنایا ہے۔ پس خدا اسرائیل کا دشمن ہے۔ اسرائیل کا خاتمہ پروردگار کا فیصلہ ہے۔ روز قدس خدا کے اس فیصلے پر اطمینان کے اظہار کا دن ہے۔ خداوند نے بتدریج زوال، اور پھر خاتمہ کو اسرائیل کا مقدّر قرار دیا ہے۔ روز قدس خدا کی مقرر کردہ اس تقدیر پر ایمان کے اظہار کا دن ہے۔ رہبر معظم کا فرمان ہے: روز قدس امت مسلمہ کی جانب سے علی الاعلان فلسطینیوں کی حمایت اور صیہونیوں کی جابر اور نا عادل ریاست اور ان کے حامیوں کی مخالفت کا دن ہے۔

فلسطین کی آزادی میں اپنے حصے کا تحرک مسلمان امت کی قوت میں اضافہ کا سبب ہے۔ ایک نقطہ جو قابل ذکر ہے وہ یہ کہ آزادیِ فلسطین کے موضوع میں تحرک دکھا کر ہم فلسطین کے حق میں نہیں بلکہ اپنے حق میں خیر کریں گے۔ فلسطین کو تو آزاد ہونا ہی ہے۔ یہ تو خدا کا فیصلہ ہے۔ ہم کچھ بھی نہ کریں پھر بھی خدا کسی صورت اپنے ارادے کو انجام دے گا۔ ہم اس میں اپنا حصہ ڈال کر خود کے مقام میں اضافہ کریں گے۔ خدا کی قربت، ایمان تقویت حاصل کریں گے۔ قدس تو آزاد ہوگا ہی۔ ہم اس آزادی میں اپنا کتنا حصہ ڈالتے ہیں، یہ اہم ہے۔ گویا کہ اس مسئلہ کے ذریعہ ہماری آزمائش ہے کہ ہم کتنے پانی میں ہیں۔ اب قدس کی آزادی میں حصہ ڈالنا ہے یا نہیں یہ آخری فیصلہ ہم پر ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .