۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مدرسہ الامام المنتظر قم میں سالانہ علمی سیمینار کا انعقاد

حوزه/ حجت الاسلام اصغر علی سیفی نے محسن ملت علامہ صفدر حسین کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ علامہ نے مدارس کی تشکیل کا پودا لگایا اور آج یہ پودا تناور درخت بن کر پورے پاکستان میں اپنےثمرات دے رہا ہے۔

حوزه نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مدرسہ الامام المنتظر قم ایران میں منعقدہ علمی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مدرسہ الامام المنتظر کے شعبہ ثقافت اور وفاق المدارس شعبۂ قم کے سربراہ حجت الاسلام علی اصغر سیفی نے کہا کہ اسلاف کی یاد و قدر دانی با بصیرت اور ترقی یافتہ معاشرے کی علامت ہے سب سے پہلے محسن ملت علامہ صفدر حسین رح کا ذکر کرتا ہوں کہ جنہوں نے یہ مدارس کی تشکیل کا پودا لگایا اور آج یہ پودا تناور درخت بن کر پورے پاکستان میں اپنےثمرات دے رہا ہے اسی طرح قبلہ مرحوم علامہ قاضی سید نیاز حسین نقوی رح کہ جنہوں نے مدارس کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے اسلامی مکاتب کی یکجہتی میں بنیادی کردار ادا کیا۔

انہوں نے مزید کہا جتنے بھی شیعی حوزات قائم ہوئے ہیں ان میں حوزہ جبل عامل کا ناقابل فراموش کردار رہا ہے یہ حوزہ تقریباً دو سو سال تک رہا آٹھویں صدی ہجری سے دسویں صدی ہجری تک، اس میں بڑی بڑی شخصیات پیدا ہوئی اور علمی میراث کا بے پناہ ذخیرہ چھوڑا اس حوزہ کو حلہ کے شاگردوں نے آباد کیا اس کے بعد حوزہ اصفہان کی بنیاد رکھی گئی اور حالات کے پیش نظر علماء نے ایران کا رخ کیا وہ علماء کہ جو علم و فقاہت کے میدان میں جبل عامل میں خورشید کی مانند چمکے ان میں شہید اول کا نام سر فہرست ہے شہید اول کوئی معمولی شخصیت نہیں تھے بلکہ اہل سنت کے تمام فقہی مکاتب میں بھی کاملا متبحر تھے سترہ سال میں مقام اجتہاد پر پہنچے اور اکیس سال تک حوزہ کے تمام علوم حاصل کرکے جبل عامل آئے اور حوزہ جبل عامل کی بنیاد رکھی سولہ سال کے تھے تو فخر المحققین جیسے استاد ملے کہ جن سے سات مہینے تک استفادہ کیا اور خود فخر المحققین شہید اول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ جتنا انہوں نے مجھ سے استفادہ کیا اس سے زیادہ میں نے ان سے استفادہ کیا ہے۔

حجت الاسلام اصغر علی سیفی نے شہید اؤل کی شخصیت پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شہید اول کا خاندان نسل در نسل اجتہاد و فقاہت کا میدان تھا انکے والد اور والدہ فقیہ ان کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی، سب کے سب فقہاء تھے اور بیٹی کو سیدۃ المشائخ کا لقب ملا۔ امام دہم علیہ السلام سے روایت ہے کہ جس کا مضمون یہ ہے کہ اگر غیبت کے زمانے میں یہ علماء نہ ہوتے کہ جنہوں نے تبلیغ کی اور عالم تشیع کی زمام اپنے ہاتھ سنبھالی تو کوئی بھی دین خدا پر باقی نہ رہتا ان کی وجہ سے شیعوں کے عقائد اور فروعات باقی رہے ہیں، جس طرح معصومین علیہم السلام نے اپنے خون سے شجرہ دینی کی آبیاری کی وہی کردار ان علماء نے بھی ادا کیا شہید اول نے تقریباً چھ سو سال پہلے لمعہ کتاب لکھی جو آج تک دینی مدارس کے نصاب میں شامل ہے کہ جس کو لکھنے میں سات دن لگے جو ان کی علمیت کا ثبوت ہے

انہوں نے مزید کہا کہ شہید تمام مکاتب میں فقیہ تھے اور سب کو ان کی فقہ کے مطابق جواب دیتے تھے جس کی وجہ سے حاسدین کے شر کا شکار ہوئے آئمہ علیہم السلام کی طرح، مالکی اور شافعی فقیہ نے منحوس سازش تیار کی اور اس عالم بزرگوار کو بیدردی کے ساتھ شہید کردیا گیا شہید اول میں تمام اہل بیت کے مصائب اکھٹے ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں ایک سال قید میں رکھا گیا پھر تلوار سے شہید کرکے بدن کو سنگسار کردیا پھر اس بدن کو دار پر لٹکایا گیا اور پھر آگ میں جلا کر اس کی راکھ ہوا میں اڑا دی گئی اس بزرگوار نے زحمات اٹھائیں اور علمی میراث کو چھوڑا۔ شیخ حر عاملی بیان کرتے ہیں کہ جنہوں نے حدیث میں شیخ صدوق اور فن مناظرہ، اصول، کلام میں شیخ مفید اور شاگردوں کی کثرت میں شیخ طوسی کو دیکھنا ہو اور دقت و جدت میں ابن ادریس حلی کو دیکھنا ہو تو وہ ان کو دیکھ لے۔ اس بزرگوار کی کل عمر ۵۲ سال تھی اور انہیں سید الاولین و الاخرین کہا جا سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ان کے مثل نہیں ہے ایسی ہستیاں ہمارے شناختی کاڈر ہیں اور ہمارا تعارف ہیں۔ خداوند متعال ہمیں ان ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .