تحریر : نذر حافی
حوزہ نیوز ایجنسی| لیجئے او آئی سی کا اجلاس تمام ہوا۔ کسی نے کہا تھا کہ جب غیرت ختم ہو جائے تو تلواریں دفاع اور جہاد کے بجائے رقص اور ناچ گانے کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔ ساری دنیا کے مسلمان حکمرانوں نے جمع ہو کر اہلِ غزہ کو یہ تسلّی بھی نہیں دی کہ اب آپ اکیلے نہیں۔ اجلاس ختم ہوا اور اہلِ غزہ بے کسی کی تصویر بنے ہماری مدد کے منتظر کھڑے ہیں۔ سچ ہے کہ بادشاہت بانجھ ہوتی ہے۔ اقتدار کے سینے میں دل ہوتا ہے اور نہ دماغ میں شعور۔ صرف کھاو، پیو اور عیاشی کرو۔ شکم و شہوت کا سلسلہ چلتے رہنا چاہیئے، باقی حق و باطل، سُنّی و شیعہ اور اسلام و کفر یہ سب بادشاہوں کے ہاں بازیچہ اطفال ہے۔ ایرانی صدر نے او آئی سی کے اجلاس میں جو دس تجاویز دیں، وہ مسلمان بادشاہوں نے سُنی ان سُنی کر دیں۔ ممکن ہے کہ کل کو لوگوں سے یہ کہا جائے کہ ایرانی صدر نے یہ تجاویز دنیا میں شیعہ انقلاب برپا کرنے کیلئے دی تھیں۔
ایسا ماضی میں کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔ ایران میں نیا نیا اسلامی و جمہوری انقلاب آیا تو عرب بادشاہتوں کی چولیں ہلنے لگیں۔ اُنہوں نے واویلا مچایا کہ خمینی اپنا شیعہ انقلاب ساری دنیا میں نافذ کرنے لگا ہے۔ صدام نے آٹھ سال ایران پر جارحانہ جنگ مسلط کئے رکھی تو لوگوں سے یہی کہا گیا کہ یہ سُنّی و شیعہ کی جنگ ہے۔ پاکستان میں شعراء، ادباء، وکلاء، ڈاکٹرز اور پولیس و فوج کے جوانوں و آفیسرز کو قتل کرنے والوں نے بھی یہی بیانیہ صادر کیا کہ ہم پاکستان میں ایرانی انقلاب کو روک رہے ہیں۔ خدا کے کام دیکھئے! اب غزہ میں اہلِ سُنت مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اہلِ سُنّت کے سارے عربی و عجمی ٹھیکیدار تماشا دیکھ رہے ہیں۔ او آئی سی کا اجلاس ہوا تو بین الاقوامی برادری نے دیکھا کہ اسلامی برادری کے پاس کہنے یا کرنے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ غزہ کے حوالے سے دنیا کو واضح اور شفاف پیغام صرف اور صرف ایران کے صدر نے دیا۔
آیت اللہ رئیسی کے مطابق: “آج ہم میں سے ہر ایک کو یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ کس صف میں کھڑا ہے: مجاہدین کی صف میں، سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند یا کھیتوں اور نسل انسانی کو تباہ و برباد کرنے والے فتنہ بازوں کی صف میں۔؟ انہوں نے صرف یہی نہیں کہا بلکہ یہ بھی کہا کہ اس وقت بین الاقوامی برادری امریکی دباو کے باعث اپنی شناخت اور قوتِ فیصلہ کھو کر بے حِس ہوگئی ہے، لازم ہے کہ اب ہم میدان میں اتریں۔ آیت اللہ رئیسی کے خطاب سے پہلے اور بعد میں ہم نے تو کسی عربی بہادر یا عجمی پہلوان کو میدان میں اترتے نہیں دیکھا۔ البتہ میڈیا اور سوشل میڈیا پر بہت ساروں کو ایران اور حزب اللہ سے ڈو مور کا تقاضا کرتے دیکھا گیا ہے۔ غضب خداکا کہ وہ لوگ جن کی زبانیں اُمّت اُمّت کی گردان سے نہیں تھکتیں اور جنہوں نے اہلِ سُنت والجماعت کے نام پر لشکر، سپاہیں اور جتھے بنا رکھے ہیں۔ کراچی سے لے کر کشمیر اور کشمیر سے لے کر افغانستان تک انہوں نے ایک میزائل تو دور ایک پتھر بھی امریکی بیڑے یا اسرائیل کی طرف پھینکنے کی بات نہیں کی۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسی باتیں سوائے ایرانی صدر کے کسی اور کو زیب بھی نہیں دیتیں۔ ایرانی صدر نے برملا کہا کہ 75 سال تو کچھ بھی نہیں، اگر فلسطین پر یہ قبضہ مزید جاری رہتا ہے تو صہیونی نسل پرست غاصب اور جارح ہی کہلائیں گے۔ ان غاصبوں کا تخلیہ کیا جائے، انہیں سزا دی جائے اور ان سے تاوان لیا جائے۔ یہ غاصب ہیں جبکہ دوسری طرف ان کے غاصبانہ قبضے کے خلاف کھڑا ہونا جائز دفاع اور ایک مقدس امر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ قابض اسرائیل کو پیچھے دھکیلنے کے لیے مزاحمت کے علاوہ کوئی دوسرا حل نہیں ہے۔ اس لیے ہم حماس اور تمام بہادر مزاحمتی گروہوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔ یہ مزاحمتی گروہ عالم اسلام کیلئے فخر کا باعث ہیں اور ہم غزہ کے مزاحمتی عوام کے عزم کو سلام پیش کرتے ہیں۔ میں واضح طور پر اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران فلسطینی مزاحمت کو آزادی کی تحریک سمجھتا ہے، غزہ کے باشندوں کی جبری نقل مکانی اور ہجرت کو جارحیت کا تسلسل اور جنگی جرم سمجھتا ہے اور مسجد اقصیٰ اور مقدس مقامات کے تحفظ کو بنیادی طور پر ضروری سمجھتا ہے۔
المختصر یہ کہ ایرانی صدر نے ہر وہ بات کہہ دی، جو کسی بھی منصف مزاج، آزاد اور خود مختار انسان کی بات ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ ایران کے صدر نے غزہ کے حوالے سے جو تجاویز پیش کی تھیں، وہ فلسطین میں اہلِ تشیع کی حفاظت کیلئے نہیں تھیں۔ نہ ہی ان تجاویز کو قبول کرنے سے دنیا میں اہلِ تشیع کا کوئی فائدہ تھا۔ او آئی سی کے اس اجلاس سے ایک مرتبہ پھر دنیا والوں پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ عرب بادشاہ خود کتنے اہلِ سُنّت، اہلِ جہاد اور توحید پرست ہیں۔ ان بادشاہوں نے مل کر او آئی سی کی طرف سے صرف ایک ایسی قرارداد سامنے لائی ہے، جس پر عمل کرنے کا اسرائیل پابند ہی نہیں۔ آسان لفظوں میں اسرائیل ایسی قرادادوں کو اور ایسے عرب بادشاہوں کو شروع سے ہی جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔
آقای رئیسی کے بقول مسلمانوں کیلئے یہ باعثِ شرم ہے کہ جب غزہ میں ہمارے مسلمان بھائیوں کا خون بہہ رہا ہے تو مسلمان حکمران اپنے معاشی فائدے کے لیے اسرائیل کی جنگی ٹیکنالوجی کو ایندھن فراہم کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ آج وہ ایک خدائی امتحان سے دوچار ہوئے ہیں اور اگر اسلامی ممالک کے سربراہوں کا آج کا اجلاس فلسطینی عوام کو بچانے کے لیے کوئی فیصلہ کن اقدام کرنے میں ناکام رہا تو اس سے اقوام کی حکومتوں سے مایوسی اور فلسطین کے دفاع میں ان کی بے صبری میں اضافہ ہوگا۔ ایرانی صدر کی گفتگو اور اسلامی معاشرے کو سامنے رکھ کر تجزیہ کیجئے۔ مسلمانوں کے سارے مسائل کی جڑیں صرف دو چیزوں میں ہیں۔ ایک یہ کہ مسلمان حکمران اپنے اقتصادی منافع کے علاوہ کچھ اور نہیں سوچ سکتے اور دوسرے یہ کہ بحیثیتِ مسلمان ہماری سوچ کے نصاب میں چندہ جمع کرنے کے علاوہ گویا کچھ اور ہے ہی نہیں۔
کہیں جنگ لگے، زلزلہ آئے، طوفان ہو یا آندھی، ہمیں سب سے پہلے چندہ جمع کرنے کی سوجھتی ہے۔ ہماری ساری چھوٹی بڑی تنظیموں، اداروں اور شخصیات کی سوچ چندے سے شروع ہوتی ہے اور چندے پر ختم۔ اگر چندہ ملے تو ہم اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو کافر کافر کہہ کر انہیں مارنا شروع کر دیتے ہیں اور اگر ہمیں چندہ نہ ملے تو بے شک کافر غزہ کی طرح ہمارے گھروں پر حملہ کر دیں، ہم ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ یقین جانئے کہ اگر آج بھی امریکی ڈالر ہمیں چندے میں ملنا شروع ہو جائیں تو جہادِ افغانستان کی یادیں فلسطین میں بھی تازہ ہوسکتی ہیں۔ او آئی سی نے اہل غزہ کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہمیں آپ سے کوئی غرض نہیں۔۔۔ “جہاں امریکہ کا اشارہ ۔۔۔وہیں حاضر ہے سر ہمارا۔”