نذرانۂ عقیدت
شهید الحاج قاسم سلیمانی
عینی رضوی ھندی (ایران)
مسدس
بیڑا اللّہ کی خاطر جو اٹھایا تونے
خون پانی کی طرح اپنا بہایا تونے
کر دیا شام سے داعش کا صفایا تونے
اپنے وعدے کو وفا کر کے دکھایا تونے
بات محدود نہیں ہے یہ فقط غاروں تک
انکو پہنچا دیا امریکا کی دیواروں تک
نوع انسان کو داعش سے بچانے والے
پرچم عدل کو کاندھے پہ اٹھانے والے
تپتے صحراوں کو سجدوں سے سجانے والے
اپنے نعروں سے پہاڑوں کو ہلانے والے
ظلم و بے داد کے مرحب کو پچھاڑا تونے
شام میں داعشی خیبر کو اکھاڑا تونے
تیری توصیف سے الفاظ ہوئے ہیں معذور
ناز کرتا ہے بہت مالک اشتر کا غرور
تیرا چرچا ہوا ما بین وحوش اور طیور
تیری غمناک شہادت ہی ہے تمہید ظہور
تیرے مرنے سے علَم دیں کا نہ جھک پائے گا
پرده غیب سے عباس نکل آئے گا
تیری للکار سے دشمن پہ تھا لرزہ طاری
تجھ پہ جچتی تھی بہت فوج کی یہ سرداری
مدتوں کرتے تھے جس ظلم کی وہ تیاری
ایک ہی لمحے میں مٹی میں ملا دی ساری
دشمنوں کے لئے اک آہنی دیوار تھے تم
حیدر عصر کی چلتی ہوئی تلوار تھے تم
تیرے اوصاف میں تھا سب سے محبت کرنا
مفلسوں اور یتیموں پہ بھی شفقت کرنا
جنگ کے وقت بھی دشمن سے مروت کرنا
رات بھر جاگ کے خالق کی عبادت کرنا
ذکر خلاق دو عالم کے نشاں باقی ہیں
آج بھی دشت میں سجدوں کے نشاں باقی ہیں
تونے سجدے کئے چلتی ہوئی تلواروں میں
دیں اذانیں کبھی صحراوں میں کہساروں میں
تیری خوشبوئے مناجات ہے گلزاروں میں
تیری تسبیح کی آواز ہے منقاروں میں
ناز کرتے تھے بہت خود پہ اور اتراتے تھے
تیرے قدموں تلے ذرّات جو آ جاتے تھے
تونے دکھلا دیا حیدر کا طرف دار ہے تو
شیر ضرغام جری سورما کرار ہے تو
بجلیاں ٹوٹ پڑیں ایسا شرربار ہے تو
ناز پرچم کو ہو جس پر وہ علمدار ہے تو
ساری دنیا ہوئی آ دیکھ دیوانی تیری
مائیں بچوں کو سنائیں گی کہانی تیری
آج تک دنیا نے ایسا نہ جنازہ دیکھا
چشم گردوں نے نہ اس شان کا لاشہ دیکھا
ایسا انبوہ نہ مردم کا نہ مجمع دیکھا
جسم انسان میں عینیؔ وہ فرشتہ دیکھا
اب خدا جانے تری کیسی یہ قربانی ہے
آج ایران میں ہر شخص سلیمانی ہے
عینی رضوی ھندوستان (ایران)