۶ مهر ۱۴۰۳ |۲۳ ربیع‌الاول ۱۴۴۶ | Sep 27, 2024
جموں و کشمیر جعفریہ سپریم کونسل پاکستان

حوزہ/جعفریہ سپریم کونسل جموں وکشمیر مظفر آباد کے چیئرمین سید زوار حسین نقوی ایڈووکیٹ نے صوبۂ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں طویل عرصے سے زمین کے تنازعے پر قبائل کے درمیان جاری مسلح تصادم پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فتنہ خوارج سے وابستہ تکفیری عناصر اس تنازعے کو بین المسالک جنگ کا رنگ دینے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، جعفریہ سپریم کونسل جموں وکشمیر مظفر آباد کے چیئرمین سید زوار حسین نقوی ایڈووکیٹ نے صوبۂ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں طویل عرصے سے زمین کے تنازعے پر قبائل کے درمیان جاری مسلح تصادم پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فتنہ خوارج سے وابستہ تکفیری عناصر اس تنازعے کو بین المسالک جنگ کا رنگ دینے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں اور زمینی تنازعے کو قانونی طور پر حل ہونے دینے میں مسلسل رکاوٹیں ڈال رہے ہیں اور تنازعہ کو شیعہ و سنی کے درمیان جنگ بنانے کی عملی کوشش کر رہے ہیں اور مسلسل افغانستان سے اس علاقے میں بسنے والے شیعہ قبائل پر ہونے والی تکفیری دراندازی نے بھی اس خطے کی صورتحال کو انتہائی گھمبیر بنا دیا ہے۔

انہوں نے مقامی تکفیری عناصر کی ایماء پر افغانستان سے غیر ملکی دہشتگردوں کے اس علاقے میں داخل ہوکر شیعہ قبائل پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ آور ہونے کے پے در پے واقعات کی شدید الفاظ میں مزمت کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کی حکومت اور ملکی دفاعی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کا سخت نوٹس لیں اور ایسے تمام مقامی سہولت کاروں کو قانون کی گرفت میں لیکر سخت سزا دیں جو غیر ملکیوں کو دہشتگردی کی غرض سے غیر قانونی طور پر پاکستانی سرحدوں کے اندر داخل کرنے اور ان کے ساتھ ملکر پاکستانی شہریوں پر دہشتگردانہ حملے کروانے میں معاون و مدد گار ہیں نیز انہیں پناہ دے رہے ہیں۔

انہوں نے اس علاقے کی سرحدی سیکیورٹی کو ہنگامی بنیادوں پر سخت کرنے کی اپیل کرتے ہوئے مزید کہا کہ پاکستان کے اندر بسنے والے تمام مسالک اور مذاہب کے لوگ برابر کے شہری ہیں اور برابر کے حقوق رکھتے ہیں اس لیے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ مذہب و مسلک کے نام پر کسی کے راستے بزور طاقت بند کر کے انہیں محاصرے میں لے، اس پر صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے اور شاہراہوں کو سفر کے لیے محفوظ بنائے۔

انہوں نے اپنے بیان میں زور دیکر کہا کہ پچھلے 76 سالوں سے اس ملک میں بعض عناصر نے اپنے سیاسی و کاروباری مقاصد اور اپنی غیر قانونی بالادستی کو قائم رکھنے کے لیے مذہب اور مسلک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کا وطیرہ بنایا ہوا ہے، جس سے ملک میں مذہبی و مسلکی انتہا پسندی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے، لہٰذا ضروری ہوچکا ہے کہ ایسے عناصر کی سرکوبی کرتے ہوئے فساد فی الارض کو بڑھنے سے روکا جائے، بصورت دیگر ملکی سالمیت کو سخت نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

انہوں نے ایسے سیاستدانوں کو بھی قانون کی گرفت میں لینے کا مطالبہ کہا جو اقتدار کی کرسیوں پر بیٹھ کر اپنے غیر قانونی کاروبار اور سیاسی اہداف کے تحفظ کے لیے مذہبی، مسلکی، لسانی اور نسلی تعصبات کو ہوا دیتے ہیں اور ایسے عناصر کو پروان چڑھاتے ہیں جو ان کے مقاصد اور نفع کے لیے کام کرتے ہوئے فساد فی الارض پھیلاتے ہیں۔

انہوں کہا کہ اس وقت صوبۂ خیبر پختونخوا ایک شورش زدہ صوبہ بن چکا ہے، جس میں دن رات دہشتگردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں، جنمیں پاک فوج، پولیس، ایف سی سمیت دیگر سیکیورٹی اداروں کے افراد اور عام سویلین جانبحق اور زخمی ہو رہے ہیں، اس صورتحال کے پیشِ نظر ضروری ہے کہ صوبائی حکومت تمام تر سیاسی وابستگیوں اور سیاسی تنازعات کو بالائے طاق رکھ کر صوبہ میں امن و امان کی بحالی پر بھرپور توجہ دے اور اس صوبے کی افغانستان سے ملنے والی سرحد کو محفوظ بنائے نیز صوبہ میں مسلکی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے خصوصی عملی اقدامات اٹھائے۔

انہوں نے کرم ایجنسی میں قبائل کے درمیان تنازعات کے حل کے لیے صوبائی حکومت کی کارکردگی کو مکمل طور پر ناقص قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس علاقے میں عملی طور پر صوبائی حکومت کی عملداری نظر ہی نہیں آ رہی، یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے اس علاقے میں امن بحال نہیں ہو رہا۔

انہوں نے اس سلسلے میں وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ صوبائی حکومت کے ساتھ کرم ایجنسی میں بحالی امن، افغانستان سے ہونے والی دراندازی اور زمین کے تنازعے کے قانونی حل کے مسئلے کو سرکاری سطح پر اٹھائے اور اس علاقے میں بسنے والے تمام قبائلی شہریوں کے آئین میں دیئے بنیادی انسانی، شہری، مذہبی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے میں فوری طور عملی اقدامات اٹھائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .