تحریر: مولانا سید حسین عباس عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی| یوں تو دنیا کے ہر مذہب میں انسانیت اور امن و سلامتی کا سبق پڑھایا جاتا ہے، لیکن اسلام نے جس قدر انسانیت کا پیغام عام کیا ہے یا جتنی تاکید اتحاد و بھائی چارہ اور محبت کی ہے، شاید ہی کسی اور مذہب نے کی ہو، اسلام نے مضبوط بنیادوں پر امن وسکون کے ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے اور پوری علمی و اخلاقی قوت اور فکری بلندی کے ساتھ اس کو وسعت دی ہے، اسلام میں امن کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جائے ولادت کو سرزمین امن قرار دیا گیا ہے؛ یہ اسلامی تعلیمات کا ہی دین ہے کہ آج دنیا کا ہر طبقہ اپنے اپنے طور پر کسی گہوارہ سکون کی تلاش میں ہے اور امن وامان کا خواہاں ہے۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان تو انسان، جانوروں کو بھی محبت بھری نظروں سے دیکھنے کا حکم دیتا ہے ۔ وہ مذہب اسلام ہی ہے کہ جسے امن و سلامتی کا مکتب کہا جاتا ہے ۔ وہ اسلام ہی ہے کہ جس میں بے گناہوں کا قتل و خون بہانا تو بہت دور کی بات؛ کسی کو بے وجہ پریشان کرنا بھی گناہ کا تصور رکھتا ہے ۔ وہ اسلام ہی ہے کہ جس نے ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی قرار دیا ہے اور ظلم کرنے کو سختی سے منع فرمایا ہے ۔ قال أَبَا عَبْدِ اَللَّهِ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ يَقُولُ: اَلْمُسْلِمُ أَخُو اَلْمُسْلِمِ لاَ يَظْلِمُهُ وَ لاَ يَخْذُلُهُ وَ لاَ يَغْتَابُهُ وَ لاَ يَخُونُهُ وَ لاَ يَحْرِمُهُ
ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے۔ اس پر ظلم نہ کرو، اسے تنہا نہ چھوڑو، اس کی غیبت نہ کرو اور اس سے خیانت نہ کرو، اور اسے محروم نہ کرو۔ (١)
وہ صرف اسلام ہی ہے جس نے یہ شعار دیا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے ۔ ۔۔۔۔۔ مَنۡ قَتَلَ نَفۡسًۢا بِغَیۡرِ نَفۡسٍ اَوۡ فَسَادٍ فِی الۡاَرۡضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیۡعًا ؕ وَ مَنۡ اَحۡیَاہَا فَکَاَنَّمَاۤ اَحۡیَا النَّاسَ جَمِیۡعًا۔
ترجمہ : جس نے کسی ایک کو قتل کیا جب کہ یہ قتل خون کے بدلے میں یا زمین میں فساد پھیلانے کے جرم میں نہ ہو تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کی جان بچائی ۔ (٢)
دہشت کو عام کرنا؛ سڑکوں کو بند کر دینا جس کے سبب بے گناہوں کا گھروں میں قید ہو جانا یا شہر میں اشیائے خوردونوش، ادویات، تیل، لکڑی، ایل پی جی کی شدید قلت پیدا ہو جانا یا راستوں کی بندش کے سبب طبی سہولیات سے محرومیت پر معصوم بچوں کا دم توڑ دینا، پورے ضلع کو ایک قید خانہ بنا دینا، جان بوجھ کر امن و امان کے ماحول کو پارہ پارہ کرنا؛ لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو سنگین خطرات سے دوچار کرنا، معصوموں کی گردنوں کو درندوں کی طرح کاٹنا، نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کرنا، انسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا، انسانوں کی جانوں کے زیاں پر خوشی منانا؛ اپنے ہاتھوں کو خون سے رنگنا ۔ ان باتوں سے مسلمانوں کا کسی بھی لحاظ سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہو سکتا اور اسلام تو قتل و خونریزی، فتنہ انگیزی، دہشت گردی کو کبھی قبول ہی نہیں کر سکتا مگر افسوس کہ یہ منظر نامہ فلسطین یا غزہ پٹی کا نہیں بلکہ پارہ چنار کا ہے ۔
جی ہاں پارہ چنار! جس کے باشندوں پر اس وقت مظالم کی انتہا کی جا رہی ہے اور غزہ کے مسلمانوں پر برسوں سے ہونے والے مظالم کی جھلک یہاں بھی نظر آ رہی ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ یہ اسی کا ایک تسلسل ہے ۔ بے گناہوں پر مظالم کی یہ داستاں اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والی ایک ایسی حکومت کے ناک کے نیچے انجام پا رہی ہے جس کے حکمراں کبھی ریاست مدینہ کا خواب دیکھا کرتے تھے ۔ ستم کی یہ روداد سوچنے پر مجبور کرتی کہ آخر ان حکمرانوں کا دین کیا ہے ؟! اور ان کی بے حسی یہ سوال پیدا کرتی ہے آخر یہ واقعات کہیں سوچی سمجھی سازش کے تحت تو نہیں اور کئیں ایسا تو نہیں کہ ان نام نہاد مسلماں حکمرانوں کے پیچھے یہودیت کار فرما ہو ؟
حوالہ جات:
١ ۔ الکافي ج ۲، ص ۱۶۷، كتاب الإيمان و الكفر، حدیث نمبر ۱۰۵۹۴۹ اور الکافی، ترجمہ مصطفوی، جلد ۳، صفحه ۴۷۳
٢ ۔ مائدہ \ ٣٢
آپ کا تبصرہ