حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، چیئرمین جموں و کشمیر جعفریہ سپریم کونسل سید زوار حسین نقوی ایڈووکیٹ اور جنرل سیکرٹری افتخار حسین زری نے صوبۂ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے علاقہ پارا چنار اور اس کے ملحقہ علاقہ جات کی 80 سے زائد دنوں سے راستوں کی بندش اور وطن دشمن دہشتگرد عناصر کی جانب سے علاقہ کو محاصرے میں رکھنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے روڈ کی بندش نیز پارا چنار کے محاصرے کے خلاف ملک بھر جاری پُرامن دھرنوں کو ملک کی عوام کا آئینی، قانونی اور جمہوری حق قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں ان احتجاجی دھرنوں میں بیٹھے پرامن اور نہتے مظاہرین پر سندھ حکومت کے احکامات پر پولیس کی فائرنگ، شیلنگ اور لاٹھی چارج کرنا، نیز عوام اور دھرنا قائدین کی گرفتاریاں عمل میں لانا انتہائی درجہ قابل افسوس اور قابل مزمت ہے۔
انہوں نے سندھ پولیس کی جانب سے مجلس وحدت المسلمین پاکستان کے رہنما اور ملک کی بزرگ مذہبی و سیاسی شخصیت علامہ سید حسن ظفر نقوی پر تشدد کرکے انہیں زخمی کیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی دعویدار پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کی جانب سے دھرنوں میں بیٹھے پُرامن مظاہرین پر فائرنگ، شیلنگ اور لاٹھی چارج بتاتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت جمہوریت اور اظہار رائے کی آزادی کے بجائے کوئی اور راستہ اپنا چکی ہے، نیز جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق و آزادی اظہار رائے کے لیے قربانیاں دینے والے اپنے بانی قائدین کی روش کو چند دنوں کے اقتدار کے لیے خیرآباد کہہ چکی ہے۔
انہوں نے سندھ حکومت کی اس روش کو پیپلز پارٹی کے بانی قائدین کے دیئے ہوئے اصولوں سے سراسر انحراف قرار دیتے ہوئے اسے آمرانہ ذہنیت کی عکاسی قرار دیا اور کہا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے آمرانہ ذہنیت کے حامل وزیر اعلی سید مراد علی شاہ کو عوام کے پرامن احتجاج کے جمہوری حق کو ظلم کے ذریعہ غصب کرنے کی کوشش کے بعد وزیر اعلی کے منصب پر براجمان رہنے کا کوئی حق نہیں رہا۔
انہوں نے اپنے اس بیان صوبہ خیبرپختونخوا کی گنڈا پور حکومت پر بھی سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گنڈا پور حکومت صوبہ میں امن و امان کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال کو کنٹرول کرنے اور دہشتگردوں سے عوام کی جان، مال اور عزت و آبرو بچانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو حکومت اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے دہشتگردوں کے قبضہ سے ایک روڈ آزاد نہ کروا سکے اور اس کی حفاظت کو یقینی نہ بنا سکے نیز پارا چنار کی محب وطن مظلوم عوام کی داد رسی نہ کرسکے، جس کے وزیر اور مشیر دہشتگردوں کی حمایت میں بول رہے ہوں اس وزیر اعلٰی اور اس کے ان وزیروں اور مشیروں کو بھی اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں انہیں اپنے عہدوں سے فی الفور مستعفی ہو کر حکومت اہل افراد کے سپرد کرنی چاہیے۔
انہوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف پر لازم ہو چکا ہے کہ وہ صوبۂ خیبر پختونخوا میں امن و امان کی بگڑی ہوئی صورتحال بالخصوص پارا چنار کے راستوں کی بندش سمیت راستوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے، بلا تخصیص مذہب و مسلک اور سیاسی تعصب علاقہ مکینوں کی جان ، مال ، عزت و آبرو کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اور دہشتگردی میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچانے نیز صوبہ کی سرحدی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فی الفور موثر عملی اقدامات اٹھائیں۔ اگر صوبہ کی نااہل گنڈا پور حکومت پاراچنار میں پیدا شدہ حالات اور صوبہ میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت اور عام شہریوں سمیت سیکیورٹی فورسز پر بڑھتے ہوئے دہشتگردانہ حملوں کو سنجیدہ طور پر نہیں لیتی تو پھر دیر کیے بغیر صوبہ میں امن و امان کو یقینی بنانے بالخصوص پاراچنار کی محصور آبادی کو دہشتگردوں کے محاصرہ سے آزاد کروانے کے لیے وفاقی سطح پر جو بھی آئینی اور قانونی حل ممکن ہے اسے بروے کار لاکر براہ راست وفاق خود ان سنگین مسائل کے حل کے لیے ٹھوس اور مؤثر اقدامات اٹھائے۔ اگر صوبائی حکومت کی طرح وفاقی حکومت بھی صوبہ اور ضلع کرم کے سنگین حالات کو درست کرنے میں لاپرواہی برتتی ہے تو پھر کے پی کے حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی پاراچنار سمیت صوبہ خیبر پختونخوا اور پورے پاکستان کی عوام کی مجرم ہے، نیز اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کے حضور بھی اس ظلم پر جوابدہ ہے۔
انہوں نے اپنے بیان میں ملک کے سنجیدہ اور محب وطن سیاستدانوں، علمائے کرام، سکالرز اور سماجی شخصیات سے اپیل کی وہ اس نازک وقت میں جب ملک کے اندر عدم برداشت، مذہبی و مسلکی کشیدگی، سیاسی عدم برداشت اور انتہا پسندی و دہشتگردی اپنے عروج پر جا رہی ہے آگے آئیں اور اس انتہا پسندانہ سوچ و فکر کو بدلنے میں اپنا کردار ادا کریں اور اس کے لیے بنیادی انسانی، مذہبی و سیاسی حقوق کے تناظر میں مؤثر و پائیدار حل پیش اور اس کے نفاذ کے لیے بھی عملی اقدامات اٹھائیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں ہر اس شخص، گروہ اور جماعت کو ملک کی موجودہ تشویشناک صورتحال اور انتہا پسندی کا ذمہ دار ٹھہرایا جس کی سوچ، فکر اور روش آمرانہ تھی اور آمرانہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آمرانہ ذہنیت خواہ کسی مذہب و مسلک کے راہنماؤں کی ہو، کسی سیاسی جماعت کے رہنماؤں کی ہو یا کسی ادارے میں بیٹھے کسی شخص کی ہو چاہے وہ شخص سیکولر ہو یا مذہبی ہو وہ ملک اور عوام کے لیے ایٹمی اور جراثیمی ہتھیاروں سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ آمرانہ ذہنیت معاشرہ میں عدم برداشت کے فروغ کا باعث بنتی ہے اور ظلم کو پروان چڑھاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خالق کائنات اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے دین کو قبول کروانے کے لیے بھی جبر سے کام نہیں لیا۔ سورہ بقرہ کی آیت 256 میں "لا اِکْراہَ فِی الدّین" کہہ کر خالق کائنات اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پسندیدہ ترین دین اسلام میں بھی کسی کو زبردستی اور جبر سے داخل کرنے سے روکا ہے، تو پھر کسی شخص، گروہ یا جماعت کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اپنے مذہبی و مسلکی عقائد، نظریات اور سیاسی نظریات دوسروں پر زبردستی تھوپنے کی کوشش کرے اور علمی و تحقیقی اختلاف رائے رکھنے پر کسی پر ظلم و ستم کرے، قتل و غارتگری پر اتر آئے اور دوسروں کے حقوق پائمال کرے۔
آپ کا تبصرہ