حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جمعرات کی شب اور جمعہ کی صبح ہونے والا ہنگامی اجلاس ایک غیر معمولی اور بے مثال انداز میں اسرائیل مخالف ماحول کا حامل رہا، جہاں امریکہ کے سوا تمام ممالک نے قطر پر اسرائیلی حملے کی سخت مذمت کی۔
یہ اجلاس قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں نیویارک میں منعقد ہوا، جس میں قطر کے وزیر اعظم و وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمن آل ثانی نے بھی شرکت کی۔ اجلاس سے قبل جاری مشترکہ پریس ریلیز میں کونسل کے رکن ممالک نے دوحہ میں عام شہریوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے قطر کی خودمختاری اور خطے میں اس کی ثالثی کوششوں کی حمایت کی۔
اقوام متحدہ کی معاون سیکرٹری جنرل برائے سیاسی امور روزماری دیکارلو نے اس حملے کو ’’چونکا دینے والا‘‘ اور ’’قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔
انگلینڈ، فرانس، چین، روس، ترکی اور دیگر ممالک کے نمائندوں نے بھی اسی انداز میں اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ برطانوی نمائندہ باربارا وڈورڈ نے کہا کہ یہ حملہ ’’قطر کی خودمختاری کی کھلی خلاف ورزی اور خطے کے امن کے لیے سنگین خطرہ‘‘ ہے۔ فرانس کے نمائندے نے کہا کہ یہ کارروائی بین الاقوامی قوانین کے منافی ہے۔
چینی نمائندے نے کہا کہ دوحہ میں حماس کے وفد کو نشانہ بنانا ’’بدنیتی اور مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی سازش‘‘ ہے۔ روسی نمائندہ واسیلی نبنزیا نے خبردار کیا کہ یہ حملہ ان کے ملک کے مشن سے صرف 600 میٹر کے فاصلے پر ہوا اور اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔
عرب اور اسلامی ممالک بالخصوص مصر، الجزائر، اردن، کویت، امارات، پاکستان اور صومالیہ نے بھی اسرائیل کی اس جارحیت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے ’’خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کی اسرائیلی پالیسی‘‘ کا تسلسل قرار دیا۔
پاکستان کے نمائندے نے اسرائیل کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا: "یہ ناقابل قبول ہے کہ ایک جارح قوت اسرائیل، سلامتی کونسل کے سامنے کھلے عام جھوٹ اور بے بنیاد دعوے کرے۔"
اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے اسے ’’بزدلانہ اور غادرانہ حملہ‘‘ قرار دیا، جب کہ کویت کے نمائندے نے واضح کیا کہ خلیج تعاون کونسل ایسے حملوں پر خاموش نہیں بیٹھے گی۔
اگرچہ سلامتی کونسل کے مشترکہ بیان میں اسرائیل کا نام براہِ راست نہیں لیا گیا، تاہم تمام 15 اراکین نے اس پر اتفاق کیا کہ جنگ فوری طور پر رکے، غزہ میں قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے اور مزید انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جائے۔
اسرائیلی نمائندے نے اپنے روایتی دھمکی آمیز لہجے میں قطر کو براہِ راست نشانہ بنایا اور کہا: "قطر کو اب فیصلہ کرنا ہوگا: یا وہ حماس کو نکالے اور مذمت کرے، یا پھر اسرائیل یہ کام خود کرے گا۔"









آپ کا تبصرہ