۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ/آپکی زندگی میں فقراء و محروم طبقہ کو خاص حیثیت حاصل تھی آپ انہیں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے انکی مشکلوں کو حل کرتے انکے مسائل کو سنتے اور انکی حاجتوں کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | امام ہادی علیہ السلام نے ۱۵ ذی الحجہ ۲۱۴ ہجری میں مدینہ منورہ کے علاقے '' صريا،، (۱)میں آنکھیں کھولیں آپکو نجیب ،ناصح، متوکل ، مرتضی، ہادی و نقی جیسے القاب سے یاد کیا جاتا(۲) ہے آپکی کنیت ابوالحسن ثالث بیان کی گئی ہے(۳) جیسا کہ واضح ہے آپ امام جواد علیہ السلام کے فرزند ہیں آپکی والدہ گرامی کا نام تاریخ میں والدہ سمانہ(۴) یا سوسن(۵) بیان کیا گیا ہے ، آپ اور آپکے بیٹے امام حسن عسکری علیہ السلام کو امامین عسکریین(۶) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے بظاہر اسکی وجہ عباسی خلفا ء کی جانب سے آپ دونوں بزرگواروں کو سنہ 233 ہجری میں سامرا لے جاکر چھاونی میں رکھنا ہے چنانچہ آپ آخرِ عمر تک سامرہ میں ہی نظر بند رہے جو کہ اس وقت ایک ایسا علاقہ تھا جسے چھاونی کے طور پر جانا جاتا تھا ۔
آپ کا علم اور اخلاقی فضائل

آپ علم و حلم میں لا ثانی تواخلاقی فضائل خاص کر سخاوت و بخشش میں بے نظیر و یکتائے روزگار تھے آپکی زندگی میں فقراء و محروم طبقہ کو خاص حیثیت حاصل تھی آپ انہیں کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے انکی مشکلوں کو حل کرتے انکے مسائل کو سنتے اور انکی حاجتوں کو پورا کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے، آپ مدینہ میں موجود کھجوروں کے باغات میں خود بھی کام کرتے اور جن کے پاس کام نہ ہوتا انہیں بھی ضروریات زندگی کے لئے کام پر لگا دیتے کھیتی باڑی کرتے اورطلب رزق حلال کے لئے کسی بھی کوشش سے دریغ نہ کرتے ،آپ انکے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے جو لوگ آپکا برا چاہتے ، شاید یہی وجہ ہے کہ دیگر ائمہ کے سلسلہ سے امامت کے دعویدار نظر آتے ہیں لیکن آپکی امامت پر تمام ہی بزرگان شیعہ متفق نظر آتے ہیں اور کمسنی میں امامت کے باوجود کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا ہے(۷)

آپکے دور کے سیاسی حالات :

آپکی زندگی کے سات سال معتصم عباسی کی خلافت کے دور میں گزرے ، اور یہ سات سال کا عرصہ آپ پر بہت سخت وگراں گزرا ، ان سات سالوں میں مدینہ میں آپکی کڑی نگرانی ہوتی ، آپ پر لوگوں سے ملنے جلنے پر پابندی تھی یہاں تک "بصریا" نامی جگہ پر آپ پر نظر رکھنے کے لئے بھی کچھ گماشتوں کو رکھا گیا تھا(۸) سامرا و بغداد کی صورت حال بھی مدینہ سے الگ نہ تھی یہاں پر بھی آپکے ساتھ آپکے شیعوں پر بھی آپ ہی کی طرح حکومت وقت کی جانب سے پابندیاں تھیں اور جو شیعہ آپ سے ملتے جلتے وہ بھی تقیہ کی حالت میں ملتے تھے(۹)
معتصم کے مرنے کے بعد ۲۲۷ ہجری میں اسکا بیٹا واثق خلیفہ بنا اور اس نے مامون کے طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے علمی نشستوں کا اہتمام کرنا شروع کیا کبھی علمی گفتگو ترتیب دی جاتی کبھی مناظرے ہوتے اس طرح ایک اچھا علمی ماحول فراہم ہوا لیکن یہ سلسلہ زیادہ نہ چل سکا اور انجام کار ۲۳۲ ھ میں دو ترک سرداروں کی تحریک پر قتل کر دیا گیا اور اسکا بھائی جعفر جسے متوکل بھی کہا جاتا ہے مسند نشین ہوا(۱۰)
متوکل ایک شرابی ، تند خو، اور بہت ہی متعصب قسم کا آدمی تھا اسکے نظریات بھی بہت خشک اور متہجرانہ تھے اور ان پر سختی بھی بہت کرتا تھا چنانچہ اس دور میں معتزلہ کے خلق قرآن کے عقیدے پر اس نے بہت سختی کی اور ان تمام لوگوں کو کافر قرار دیا جو معتزلہ کے عقیدے کے قائل تھے اور اسکے مقابل احمد بن حنبل و اہل حدیث کے نظریات کو کھلی چھوٹ دیتے ہوئے انکی حمایت کی ، شیعوں سے اسکی دشمنی بہت شدید تھی اور اہلبیت و شیعوں سے شدید عناد رکھتا تھا ، شیعوں اور اور اہل بیت اطہار علیھم السلام سے اسکی دشمنی کا عالم یہ تھا کہ اس نے مقامات مقدسہ کی زیارت کو ممنوع قراردے دیا تھا حتی ۲۳۵ ھجری میں امام حسین علیہ السلام کے روضہ کو منہدم کرنے کا حکم(۱۱) دے کر اس نے نہ صرف اپنی سفاکیت بلکہ اہل بیت اطہار علیھم السلام کے ساتھ اپنی شدید دشمنی کا واضح طور پر اعلان کر دیا ،متوکل کے دور حکومت میں بہت سے شیعوں کو دار پر چڑھا دیا گیا بہت سوں کو سخت ترین ایذائیں دے کر شہید کر دیا ،نہ جانے کتنوں کوزندانوں میں ڈال ڈال کر مار دیا انجام کار خود اپنے بیٹے کے حکم سے ۲۴۷ ھ میں واصل جہنم ہوا(۱۲) متوکل کے بعد اسکے بیٹے منتصر نے ۶ مہینہ سے زیادہ خلافت نہ کی لیکن ہر طرف فتنہ و فساد کا بازار گرم ہو گیا مصرو خراسان اور سیستان عباسی سلطنت سے خارج ہو گئے سیستان میں یعقوب لیث صفاری کا سکہ چلا تو بغداد میں لوگوں نے مستعین کے نیچے سے تخت حکومت کھینچ لیا اور اسکی جگہ معتز عباسی کو بٹھا دیا تین سال بعد اسکی جگہ پر واثق کا بیٹا محمد مھتدی خلیفہ بنا(۱۳) ان تمام حوادث کے درمیان امام علی نقی علیہ السلام سامرا میں حالات کا مشاہدہ کرتے رہے ،آپکو ۲۳۳ ھ میں متوکل کے حکم سے سامرا لایا گیا(۱۴) آپکی عمر مبارک کے ۲۱ سال سامرہ میں گزرے ، سامرہ میں حکومت وقت کی نظر ہر وقت آپ پر رہتی رات بے رات آپکو کبھی بھی گھر سے بلا لیا جاتا ، معمولی سے معمولی شکایت پر آپ سے پوچھ تاچھ کے لئے حکومتی کارندے آپ کے گھر در آتے ،کبھی اسلحوں کے بہانے آپکے گھر کی تلاشی لی جاتی(۱۵) تو کبھی کسی اور بہانے آپکو پریشان کیا جاتا ، کبھی ایسا بھی ہوتا کہ فوج کوآمادہ و تیار کر دیا جاتا اور آپ سے بلا کر کہا جاتا کہ میں نے اس لئے آپکو بلایا ہے تاکہ اسلحوں سے لیس میرے لشکر کا مشاہدہ کریں(۱۶) ،اور یہ سب اس ڈر سے ہوتا کہ امام قیام نہ کر دیں لہذا ان حرکتوں کے ذریعہ کوشش ہوتی کہ امام کو یہ بتایا جا سکے کہ آپ کو لیکر ہم ہر طرح سے چوکنے ہیں اور ہرگز کوئی ہمارے خلاف قیا م کی نہ سوچے ۔

امام ہادی علیہ السلام کی علمی خدمات :

تمام تر حکومت کی پابندیوں اور اور حکومت کی جانب سے تمام تر کڑی نگرانی کے باوجود آپ نے اپنے ۳۴ سالہ دور امامت میں امت اسلامی کی رہنمائی کے لئے کوئی دقیقہ فروگزار نہ کیا اور حکومت کی مسلسل نگرانی کی باوجود آپ نے اپنی علمی کوششوں کو جاری رکھا اور ضرورت کے وقت حسب موقع کبھی خطوط کے ذریعہ تو کبھی رقعوں اور نوشتوں کے ذریعہ آپ نے علمی گتھیوں کو سلجھا کر امت کی رہنمائی کی ، آپ علمی مناظروں میں شریک ہوتے اور علمی مسائل کو حل کرتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ متوکل یہ سوچ کر مناظرہ ترتیب دیتا کہ آپ کو شکست دی جائے اور آپکی عظمت و جلالت پر سوال اٹھایا جائے لیکن اسے ہی شکست کا منھ دیکھنا پڑتا ، ہر مناظرہ کے بعد آپکی عظمت اور جلالت کا رنگ لوگوں پر اور جم جاتا ،کبھی سخت سے سخت سوالات آپکو متوکل کے ذریعہ بھیجے جاتے جنکا بخوبی جواب دیتے(۱۷) کبھی یحیی ابن اکثم جیسو ں کے سوالات آپ کو دئے جاتے تو آپ مکمل وضاحت کے ساتھ انکے جواب لکھ کر واپس کر دیتے (۱۸) یحیی ابن اکثم نے جب اپنے سخت سے سخت سوالوں کے جوابات کو امام علیہ السلام کی جانب سے دریافت کیا اور دیکھا کہ علمی طور پر آپ سے الجھنا بے معنی ہے تو متوکل سے کہا مجھے ناپسند ہے کہ اس شخصیت سے کچھ پوچھا جائے اسلئے کہ ہم جتنا پوچھتے ہیں انکا علم اتنا ہی آشکار ہوتا ہے اور یہ وہ چیز ہے جو رافضیوں کی تقویت کا سبب ہے(۱۹)

علاوہ از یں آپکی علمی کاوشوں میں ایک حکومت وقت کے علمی مسائل میں پھنس جانے پر اسکی رہنمائی بھی تھی آپ نہ صرف اپنے شیعوں کی علمی گتھیوں کو سلجھاتے(۲۰) بلکہ حکومت وقت کی جانب سے بھی اگر کوئی علمی مسئلہ سامنے آتا جس کے سامنے حکومت بے بس ہوتی تو آپ اسے بھی حل کرتے تھے(۲۱) امام ہادی علیہ السلام نے تمام تر حکومت وقت کی جانب سے عائد پابندیوں کے باجود نہ صرف علمی مسائل کو حل کیا بلکہ ایسے شاگردوں کی تربیت بھی کی جنہوں نے آپکے بعد علوم آل محمد سے آنے والی نسلوں کو آشنا کیا ، چنانچہ آپکے شاگردوں کی تعداد ۱۸۵ تک بتائی جاتی ہے(۲۲) آپکے بزرگ اصحاب و شاگردوں میں ، عثمان بن سعید عمری، جعفر بن سہل ، یعقوب بن یزید کاتب ، سلیمان بن جعفرمروزی، احمد بن حمزہ، صالحبن محمد ہمدانی، بش بن بشار، معاویہ بن حکیم کوفی، ابراہیم بن مہزیار، فضل بن شاذان جیسے نام معروف ہیں(۲۳) عقائد، تفسیر، فقہ اور اخلاق جیسے متعدد موضوعات پر آپ سے منقول احادیث کا ذخیرہ آج بھی تشنگان علم و حکمت کو سیراب کر رہا ہے ۔ آپ سے منقول احادیث کا زیادہ حصہ اہم کلامی موضوعات پر مشتمل ہے اور وہ بھی ایسے موضوعات جو ہمیشہ متنازعہ رہے ہیں جیسے تشبیہ و تنبیہ اور جبر و اختیار وغیرہ ۔ زیارت جامعۂ کبیرہ جو حقیقت میں امامت سے متعلق شیعہ عقائد کی ترجمان ایک معتبر زیارت ہے جسے امام شناسی کا ایک نصاب قرار دیاجا سکتا ہے ، آپؑ ہی کی یادگار ہے۔یہ ایک ایسی زیارت ہے جس میں ائمہؑ کے بارے میں شیعہ عقائدکے ساتھ یہ بتانے کی کوشش کی گئ ہے کہ شیعہ ہونے کے اعتبار سے ائمہ طاہرین علیہم السلام کے خدا کے نزدیک بلند درجہ کے اعتراف کے بعد ہماری ذمہ داری کیا ہے ۔ یہ ایسی زیارت ہے جس میں فصیح و بلیغ انداز میں امام شناسی کے سلسلہ سے بہترین رہنمائی کی گئی ہے ۔
کہا جا سکتا ہے کہ زیارت جامعہ حقیقت میں عقیدۂ امامت کے مختلف پہلؤوں کی ایک اعلی اور بلیغ توصیف و توضیح ہے جس کے ذریعہ عقیدہ امامت کو ایسا استحکام حاصل ہوتا ہے کہ انسان کبھی بھی اس کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نہیں ہوتا اور نہ ہی دین کے سلسلہ سے کبھی منحرف ہو سکتا ہے کیونکہ امامت کا عقیدہ ہی دین کی بنیاد ہے اور اس عقیدہ کی مکمل اور ٹھوس وضاحت اس زیارت میں کی گئی ہے۔ البتہ چونکہ اس زیارت کے مضامین مقامات و مراتب ائمہ طاہرین علیھم السلام کے تناظر میں وارد ہوئے ہیں لہذا امام ہادیؑ نے فرمایا ہے کہ زیارت جامعہ پڑھنے سے پہلے 100 مرتبہ تکبیر پڑھنا چاہیے شاید اسکے پیچھے یہ راز ہو کہ ان عالی ترین مقامات کو دیکھ کر انسان انسان غلو میں مبتلا نہ ہو(۲۴) بلکہ شان ائمہ طاہرین علیھم السلام کو سمجھنے کے بعد مزید اس بات کا ایقان پیدا کر لے کہ خدائے واحد سے بڑھ کر کوئی ذات نہیں ہے

نظام وکالت کا استحکام و انصرام :

شک نہیں کہ ائمہ طاہرین علیھم السلام کا آخری دور عباسی خلفا کے شدید دباؤ کا دور تھا با این ہمہ چونکہ شیعہ دنیا بھر میں پھیل چکے تھے اورعراق، یمن اور مصر اور دیگر ممالک کے شیعہ امام ہادی علیہ السلام سے جڑے ہوئے تھے لہذا ضروری تھا کہ اس نظام وکالت کو مزید بہتر بنایا جا سکے جسکی بنیاد آپکے والد بزرگوار بلکہ ان سے بھی پہلے امام کاظم علیہ السلام کے زمانے میں ہی پڑ چکی تھی لیکن اس نظام کو مزید منظم ہونا ضروری تھا چنانچہ آپ نے منظم طور پر ایک ایسے نظام کو پیش کیا جس کے ذریعہ آپ سے جڑے امور آسانی کے ساتھ حل ہو سکیں ،شرعی مسائل سے لیکر مالی مسائل سبھی کو اس نظام کے ذریعہ حل کیا گیا چنانچہ آپکے وکلاء جہاں خمس اکٹھا کرکے امام کے لئے بھجواتے اور یوں امام اس رقم کو مستحقین تک پہنچاتے وہیں بعض وکلاء لوگوں کی کلامی اور فقہی پیچیدگیاں اور مسائل حل کرنے میں تعمیری کردار ادا کرتے اور اپنے علاقوں میں امام حسن عسکری علیہ السلام کی امامت کے لئے ماحول فراہم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتے تھے۔
آپکےیہ وکلاء قابل اعتماد افراد کے ذریعہ آپ سے خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطے میں رہتے تھےاور یوں فقہی اور کلامی معارف کا ایک بڑا حصہ خطوط و مکاتیب کے ذریعے ان کے پیروکاروں تک پہنچتا تھا۔(۲۵)

منحرف افکار سے مقابلہ :

امام ہادی علیہ السلام کی خدمات میں ایک عظیم خدمت شیعوں کے درمیان غلو آمیز عقائد کی ترویج سے مقابلہ ہے آپ نے ایسے عقائد کو شیعہ عقائد کے ساتھ مخلوط نہ ہونے دیا جو غالیوں کی جانب سے پیش کئے جاتے تھے ، چنانچہ جب بھی کوئی ایسا عقیدہ جسکا تعلق مذہب اہلیت سے نہ ہوتا سامنے آتا تو آپ لوگوں کو آگاہ کرتے کہ اس عقیدہ کا تعلق اہلبیت اطہار علیھم السلام کے بتائے اصولوں سے نہیں ہے چنانچہ علی بن حسکہ قمی جو کہ آپکے پیروکاروں میں تھا جب اس نے یہ دعوی کیا کہ آپکی جانب سے وہ منصب نبوت پر فائز ہوا ہے اور آپکے باب کی حیثیت اسے حاصل ہے اور آپ سے اس سلسلہ سے سوال ہوا تو آپ نے واضح طور پر جواب میں لکھا: یہ وہ باتیں ہیں جنکا ہمارے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے ان سے پرہیز کرو ، اور اتنا ہی نہیں آپ نے علی بن حسکہ سے اپنے تعلق کو بالکل مسترد کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ اسکی باتیں غلط و بیہودہ ہیں شیعوں کو ان باتوں سے بچنا چاہیے ہم سے ان باتوں کا کوئی تعلق نہیں ہے(۲۶) علی بن حسکہ وہ شخص ہے جو قاسم شعرانی یقطینی کا استاد تھا اوریہ دونوں غالیوں کے بزرگوں اور آئمہؑ کے نفرین اور لعن شدہ اشخاص تھے.محمد بن عیسی نے ان دونوں کے متعلق امام حسن عسکری ؑ کو ایک مکتوب روانہ کیا اور امام علیہ السلام سے پوچھا کہ ہم ان دونوں کے بارے میں کیا کریں چنانچہ وہ لکھتے ہیں :ہمارے یہاں ایک جماعت ہے جو آپ سے ایسی احادیث نقل کرتے ہیں جنہیں ہم نہ تو رد کر سکتے ہیں چونکہ آپ سے منقول ہیں اور ان میں ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ جن کی وجہ سے انہیں قبول بھی نہیں کر سکتے .وہ "ان الصلاۃ تنہی عن الفحشاء و المنکر..."میں کہتے ہیں .ان سے شخص(امام حسن عسکری) مراد ہے کوئی رکوع و سجود مراد نہیں ہے اسی طرح فرائض و سنن کی وہ تاویل کرتے ہیں....امام نے جواب میں لکھا "یہ ہمارا دین نہیں ہے تم ان سے دوری اختیار کرو".(۲۷) اسی طرح جب حسن بن محمد اور محمد بن نصیر نمیری کے بارے میں آپ سے سوال ہوا تو آپ نے جواب دیا:میں ان دونوں سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتا ہوں ، اور شیعوں کو انکے فتنوں سے برحذر رہنے کی تاکید کرتا ہوں ،دونوں پر لعنت بھیجتا ہوں ، یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے مال کو ہمارے نام پر کھاتے ہیں ، فتنہ کرتے ہیں اور لوگوں کے لئے باعث زحمت ہیں ، خدا ان پر اپنا عذاب نازل کرے اس باب کو لگتا ہے کہ میں نے اسے نبوت عطا کی ہے اور وہ میرا باب ہے ،خدا کی لعنت ہو اس پر(۲۸) حسن بن محمد بن بابا قمی اور محمد بن موسی شریقی بھی انہیں لوگوں میں تھے جنکے غلط عقائد کی بنا پر امام نے ان سے بیزاری کا اعلان کیا یہ لوگ علی بن حسکہ کے شاگرد تھے. جو لوگ امام ہادیؑ کے لعن کا مصداق قرار پائے.امامؑ نے ایک خط کے ضمن میں ابن بابا قمی سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے ایک مقام پر فرمایا : "وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسے بھیجا ہے اور وہ میرا باب ہے. پھر فرمایا :"اے محمد!اگر تمہارے لئے ممکن ہو تو پتھر سے اسکا سر کچل ڈالو".(۲۹)
محمد بن نصیر نمیری سے بھی امام نے اپنی بیزاری کا اظہار برملا فرمایا چنانچہ آپ نے اسکے سلسلہ سے واضح طور پر کہا کہ اس سے ہمارا تعلق نہیں ہے یہ بھی غالیوں میں سے ہے. یہ وہ شخص ہے جس پر امام حسن عسکری ؑ نے لعنت بھیجی تھِی جبکہ اس شخص نے ایک فرقہ بھی بنا دیا تھا چنانچہ کچھ لوگ محمد بن نصیر نمیری کی نبوت کے قائل تھے کیونکہ نمیری نے ادعا کیا تھا کہ امام حسن عسکری ؑ نے اسے نبی اور رسول بنا کر بھیجا ہے.امام حسن عسکری ؑ کے بارے میں خدائی کا دعویدار تھا. تناسخ کا قائل تھا، محارم سے نکاح نیز مردسے مرد سے نکاح کو بھی درست سمجھتا تھا(۳۰) یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بعد میں جو نُصَیری کہا گیا جو خود کئی فرقوں میں بٹ گئے ہیں(۳۱) .
آپکی شھادت :
متوکل عباسی کے واصل جہنم ہونے کے بعد آپنے زندگی کے سات سال چار خلفاء کے دوران حکومت میں گزارے جن میں سخت ترین ایام شامل ہیں ، تیسری رجب ۲۵۴ ہجری کو چالیس سال کی عمر میں خلافت معتز میں آپکو زہر دغا سے شہید کیا گیا مشہور ہے کہ معتمد عباسی آپکو زہر سے شہید کیا ، اور اپنے ہی گھر میں سپرد خاک ہوئے (۳۲) آپکی شہادت کی خبر سنتے ہی تمام حکومتی مراکز و بازار بند کر دئے گئے اور اس انداز سے آپکی تشیع ہوئی کہ سامرہ میں ایسی تشیع کسی کہ نہ ہوئی آپکے کے جنازے میں عوام کی بھیڑ اس قدر زيادہ تھی کہ امام عسکریؑ کے لئے ان کے درمیان چلنا مشکل ہورہا تھا(۳۳) ۔آپکی شہادت کے بعد لوگوں کو معلوم ہوا کہ ہم نے کس مسیحا کو کھو دیا ہے چنانچہ ملتا ہے کہ پورا سامرہ سوگوار تھا ہر ایک کی آنکھیں اشکبار تھیں کہ محض شیعوں کا امام نہیں ایک ایسا دردمند انسان دنیا سے چلا گیا جو سب کے لئے بلا قید مذہب و ملت مسیحائی کرتا اور انکے غموں کو بانٹتا تھا ۔
۔ ****
حوالے و حواشی:
1. ۔طبرسى، اعلام الورى، الطبعة الثالثة، دارالكتب الاسلامية، ص 355 - شيخ مفيد، الارشاد، قم، مكتبة بصيرتى، ص .327
2. اربلی، مناقب، ج4 ص432۔
3. شیخ طو سی ، رجال ص ۳۹۷
4. مفید، الارشاد، ص635۔
5. نوبختی، فرق الشیعہ، ص135۔
6. ابن جوزی، تذکرة الخواص، ج2 ص 492 ۔
7. مسعودی ، اثبات الوصیہ، لامام علی ابن ابی طالب ص ۲۴۳
8. ایضا ، ۲۴۵
9. شیخ مفید الارشاد، جلد ۲ ص ۲۸۶
10. طبری، جلد ۷، ۳۴۱
11. ایضا، جلد ۷ ص ۳۴۱
12. ایضا، ۳۹۷
13. یعقوبی ، جلد ۲ ص ۵۰۵
14. نوبختی، فرق الشیعہ ص ۱۳۵
15. ایضاد ص ۲۹۱
16. علی بن عیسی اربلی ، کشف الغمہ فی معرفۃ الائمہ جلد ۲ ص ۳۹۵
17. ابن شہر آشوب، مناقب آلی ابی طالب ، جلد ۴ ص ۴۰۳
18. حسن بن علی بن شعبہ حرانی، تحف العقول عن آل الرسول ، ص ۵۶۳
19. ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ، ۴ص ۴۰۵
20. حسن بن علی بن شعبہ۔ حرانی ، تحف العقول ، ص ۵۳۸
21. ابن شہر آشوب ،مناقب آل ابی طالب ، ۴ص ۴۰۵
22. طوسی، رجال ۴۰۹
23. ابن شہر آشوب، مناقب آلی ابی طالب جلد ۴ ص ۴۰۲
24. ملّا محمّد تقی مجلسی شرح روضه المتّقین ص666۔
25. تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مسند الامام الہادی ص 320 ۔
26. رجال کشی، ۵۶۷
27. شيخ طوسي ،اختيار معرفۃ الرجال ،جلد : 2،ص 805،995 ش 999.
28. ایضا، ۵۶۸
29. ایضا
30. شیخ طوسی،اختیار معرفۃ الرجال،1/805/1000
31. نوبختی، فرق الشیعہ ص136
32. شيخ مفيد، الارشاد، قم، مكتبة بصيرتى، ص .334
33. مسعودی، ترجمہ اثبات الوصیہ، ص۴۵۶

(نوٹ: اس مضمون کے بیشتر مطالب ڈاکٹر منتظر القائم کی کتاب تاریخ امامت سے ماخوذ ہیں)

نوٹ:حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .