حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، وفاق المدارس الشیعہ پاکستان کے صدر آیت اللہ حافظ سید ریاض حسین نجفی نے کہا ہے کہ عقیدہ توحید اسلام کی بنیاد ہے ۔ جس کی رو سے اللہ کی ربوبیت، خالقیت، قدرت وغیرہ پر ایمان لانا لازم ہے۔ فرشتے تشریعی اور تکوینی امور کے لئے انبیاءؑکے پاس آتے ہیں۔لوگوں کے لئے جو رحمت (کا دروازہ) اللہ کھولے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے، اسے اللہ کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں۔اللہ کی زمین اُن کے لئے وسیع ہے جو مالی واجبات یعنی زکوٰةوغیرہ ادا کرتے اور رسول کی پیروی کرتے ہیں۔جو چیزیں انسان کے لئے مفید ہیں انہیں رسول خُدا نے حلال اور جو مضِر ہیں انہیں حرام قرار دیاہے۔آپ انسان کو رسم و رواج کی زنجیروں سے نجات دی۔نبی کے ساتھ اُس نور کی بھی پیروی کرو جو نبی کے ساتھ اترا۔اللہ کی نعمتوں کو یاد کرو،کس طرح ایک قطرہ پر رحمِ مادر میں تصویر کشی کی۔بطنِ مادر میں بچے کی غذا کا انتظام کیا۔پیدائش کے بعد ماں کے دودھ کی شکل میں مکمل غذا مہیا کی جس کا تقابل کسی طور ڈبوں کے دودھ سے نہیں کیا جا سکتا۔قرآن مجید میںماں کو دو سال تک بچے کو دودھ پلانے کا حکم ہے۔
جامع علی مسجد جامعتہ المنتظر ماڈل ٹاﺅن میں خطبہ جمعہ میں حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ اسلامی تعلیمات میں اپنے دینی بھائےوں سے ملاقات اور محبت کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ حضرت امام جعفر صادق ؑ نے اپنے مومن بھائیوں سے قربت کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر کوئی کسی کی جیب سے اُس کے سامنے رقم بھی نکال لے تو دوسرے کو کوئی اعتراض نہ ہو۔مومن بھائی سے کسی غر ض سے نہیں بلکہ فقط اللہ کی رضا کے لئے ملنے جانے والے کے ساتھ 70 فرشتے چلتے ہیں اور اسے واپس گھر تک چھوڑ جاتے ہیں،پھر ہمیشہ اس کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں۔یہی اجر مریض کی عیادت اور جنازہ کے ساتھ چلنے والے کے لئے ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت وعظمت دینے کے ساتھ کائنات کو مسخّر کرنے کی صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے۔قرآن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ قرآن کی تشریح اور وضاحت کرنے والے رہبر بھی عنائت فرمائے۔آیت اللہ حافظ ریاض نجفی نے کہا کہ نزول کے لحاظ سے43 ویں سورة فاطر کے معنی شگافتہ کرنا ہیں۔یہ اُن چار سورتوں میں سے ہے جن کا آغاز الحمد سے ہے۔اس کے آغاز میں توحید کا ذکر ہے جو اسلام کی بنیاد ہے اور جس کی رو سے اللہ کی ربوبیت، خالقیت، قدرت وغیرہ پر ایمان لانا ہوتا ہے۔اس سورة کے آخری حصہ میں مواعظ و نصائح ہیں۔آغاز میں فرشتوں اور اُن کے پروں کا ذکر ہے۔فرشتوں کو رسول بھی کہا گیا ہے۔تشریعی اور تکوینی امور کے لئے انبیاءؑکے پاس آتے ہیں۔امیر المومنین علی علیہ السلام نہج البلاغہ کے پہلے خُطبے میں فرشتوں کے بارے فرماتے ہیں کہ کچھ وہ ہیں جن کے قدم زمین کی تہ میں جمے ہوئے ہیں اور ان کی گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہر نکلی ہوئی ہیں اور ان کے پہلو اطرافِ عَالَم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سورہ فاطر کی دوسری آیت میں ارشاد ہوا لوگوں کے لئے جو رحمت (کا دروازہ) اللہ کھولے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے وہ بند کر دے اسے اللہ کے بعد کوئی کھولنے والا نہیں۔