۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
اسرائیل عرب دوستی

حوزہ/ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کی وزارتی کونسل کے اجلاس کے دوسرے روز اپنے خطاب میں ایران کے نمائندے سعید خطیب زادہ نے اسلامی تعاون تنظیم پر زور دیا کہ وہ اسلامی دنیا میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کا راستہ روکے۔

حوزہ نیوز ایجنسیخطے میں استقامتی بلاک کی مضبوطی اور مخالف دھڑے کی شکست خوردہ پالیسیاں خطے کی صورتحال کو تیزی سے تبدیل کرسکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم اور عرب دنیا میں سرگرم صیہونی لابی مختلف ممالک کے دورے کرکے اس تبدیلی اور اپنی شکست کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خطے میں نئی سیاسی صف بندیاں جس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں، اس نے کئی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ کے روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کی وزارتی کونسل کے اجلاس کے دوسرے روز اپنے خطاب میں ایران کے نمائندے سعید خطیب زادہ نے اسلامی تعاون تنظیم پر زور دیا کہ وہ اسلامی دنیا میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کا راستہ روکے۔

دوسری جانب غاصب اسرائیل کے وزیراعظم اور ابوظہبی کے ولی عہد نے مصر کے دورے کے دوران صدر عبدالفتاح السیسی سے ملاقات کی ہے۔ "نفتالی بینیٹ" نے 21 مارچ 2022ء کو قاہرہ کا سفر کیا جبکہ صیہونی حکومت اور مصر کے ذرائع نے صیہونی حکومت کے وزیراعظم کے دورے کے صحیح وقت اور تاریخ کا اعلان نہیں کیا۔ بینیٹ کا چھ ماہ میں مصر کا دوسرا دورہ ہے۔ انہوں نے گذشتہ ستمبر میں شرم الشیخ میں عبدالفتاح السیسی سے بھی ملاقات کی تھی۔ بینیٹ کے سفر کے ساتھ ہی ابوظہبی کے ولی عہد شہزادہ محمد بن زید نے بھی شرم الشیخ کا سفر کیا اور السیسی سے ملاقات کی۔ کہا جاتا ہے کہ ایران اور چار جمع ایک گروپ کے درمیان ویانا مذاکرات بینیت، بن زاید اور السیسی کے درمیان سہ فریقی مذاکرات کا مرکز تھے۔ ویانا مذاکرات اپنے آخری دنوں میں ہیں اور شواہد اور بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین معاہدے کو حتمی شکل دینے کی راہ پر گامزن ہیں، ایک ایسا مسئلہ جس سے صیہونی حکومت خاص طور پر مطمئن نہیں ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ صیہونی حکومت اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا بھی اس سہ فریقی اجلاس کے اہم مقاصد میں سے ایک تھا۔ مصر اور متحدہ عرب امارات میں جو چیز مشترک ہے، وہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے صیہونی حکومت کے ساتھ سرکاری سفارتی تعلقات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صیہونی حکومت مصر کے ذریعے دیگر اہم عرب ممالک سے تعلقات کی توسیع چاہتی ہے۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات عالم اسلام میں اپنے خلاف رائے عامہ کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے ممالک کی تعداد بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

خبروں کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ ان سفارتی ملاقاتوں کے دو طرفہ مقاصد ہیں۔ I-24 ویب سائٹ نے اس دورے کی وجہ بتاتے ہوئے نفتالی بینیٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "ہم اسرائیل-مصری معاہدے کو موثر بنانے کے لئے ایک اور قدم کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔"

الجزیرہ قطر نے یہ بھی اطلاع دی ہے کہ یہ ملاقات تل ابیب اور قاہرہ کے درمیان ایک نیا معاہدہ طے پانے کے بعد ہوئی۔ یہ معاہدہ مقبوضہ فلسطین سے شرم الشیخ تک براہ راست فلائٹ لائن کے بارے میں ہے۔ دریں اثنا، باخبر ذرائع نے بتایا کہ موجودہ دور میں مصری انٹیلی جنس حکام اور مقبوضہ علاقوں میں ان کے اسرائیلی ہم منصبوں کے درمیان رابطوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، تاکہ کمپینڈیم معاہدے سے متعلق بعض معاملات میں ترامیم کے بارے میں سمجھوتہ کیا جا سکے۔ متحدہ عرب امارات بھی مصر کے ساتھ سفارتی تعلقات مضبوط کرتے ہوئے مصر میں سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مصری ایوان صدر کے ترجمان نے اپنے فیس بک پیج پر ولی عہد ابوظہبی کے دورے اور السیسی سے ملاقات کے بارے میں لکھا، "صدر نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے مصر کی خواہش پر زور دیا ہے۔"

بعض ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ مصر، واشنگٹن اور ریاض کے درمیان تعلقات میں ثالثی کے لیے تل ابیب کو آمادہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ جو بائیڈن کے جنوری 2021ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے واشنگٹن اور ریاض کے درمیان تعلقات سرد ہوچکے ہیں۔ العربی الجدید ویب سائٹ نے باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ السیسی اور بینیٹ کے درمیان کل ہونے والی بات چیت میں سعودی امریکہ تعلقات کے لیے تل ابیب کی حمایت پر توجہ مرکوز کی گئی۔ بظاہر ان خبروں میں جو موضوع سامنے آئے ہیں، وہ ان ملاقاتوں کا منظر ہے، اس کا پس منظر یقیناً کچھ اور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت صیہونی حکومت اور اس کے تمام اتحادی اس کے لئے ہاتھ پیر مار رہے ہیں کہ یوکرین روس تنازعہ کے تناظر میں مغرب بالخصوص امریکہ کو مشرق وسطیٰ میں کئی نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو مستقبل میں غاصب اسرائیل کے لئے بقا کا مسئلہ بھی بن سکتے ہیں۔

خطے میں استقامتی بلاک کی مضبوطی اور مخالف دھڑے کی شکست خوردہ پالیسیاں خطے کی صورت حال کو تیزی سے تبدیل کرسکتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ صیہونی وزیراعظم اور عرب دنیا میں سرگرم صیہونی لابی مختلف ممالک کے دورے کرکے اس تبدیلی اور اپنی شکست کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خطے میں نئی سیاسی صف بندیاں جس تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہیں، اس نے کئی حلقوں کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بدھ کے روز پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں منعقدہ او آئی سی کی وزارتی کونسل کے اجلاس کے دوسرے روز اپنے خطاب میں ایران کے نمائندے سعید خطیب زادہ نے اسلامی تعاون تنظیم پر زور دیا کہ وہ اسلامی دنیا میں اسرائیل کے اثر و رسوخ کا راستہ روکے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .