حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام والمسلمین رفیعی نے "تاریخ اور سیرت پیغمبرؐ میں حدیث کا کردار" نامی اجلاس میں عقیلہ بنی ہاشم حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے یوم ولادت باسعادت کی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کتاب ’’خصائص الزینبیه‘‘ اور اس کتاب میں بیان کی گئیں حضرت زینبؑ کی 40 خصوصیات کی حوالہ دیتے ہوئے کہا: مدیریت، خدا محوری، صبر و رضا، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ہیں۔
انہوں نے حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے اہم ترین اقوال کا تذکرہ کیا اور کہا: اگر کوئی شخص تپتے ہوئے صحرا میں اپنے 18 شہیدوں کو دیکھے کہ جس میں اس کے 6 بھائی بھی ہوں اور وہ مختلف مقامات پر یہ کہتا ہوا نظر آئے کہ «اللهم تقبل منا هذا القربان» ’’اے اللہ ہماری طرف سے اس قربانی کو قبول فرما «ما رایت الا جمیلا»، «فَکِد کَیْدک وَاسْعَ سَعْیک و ناصِبْ جُهْدَک فوالله لا تمحُو ذکرنا»، «إِنِّی لاَسْتَصْغِرُ قَدْرَکَ»، یہ اس شخص کی ہمت، عظمت، صبر اور اطمینان کی بلندی کو ظاہر کرتا ہے۔
ڈاکٹر رفیعی نے خدا پرستی، کربلا کو زیبائی اور خوبصورتی سے تعبیر کرنے اور دشمنوں کی تحقیر کو حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے کلیدی بیانات کا اہم ترین محور قرار دیا اور کہا: امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں متعدد بار اور شام کے دروازے پر حضرت زینب (س) نے آیت «وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ خَیْرٌ لِأَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُهِینٌ» کی تلاوت فرمائی۔
انہوں نے اپنی تقریر میں آیت اللہ ری شہری کی شخصیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آیۃ اللہ ری شہری نے تقریباً 100 حدیثی موضوعات پر 215 علمی کتابیں لکھیں، آپ نے عصر حاضر میں روایت اور حدیث کا احیاء کیا۔ ’تاریخ‘حدیث کے نقطہ نظر سےایک اہم موضوع ہے جو ہمیشہ آیت اللہ ری شہری کی توجہ کا مرکز تھا۔
قم المقدسہ میں مدرسہ امام خمینی میں مجتمع آموزش عالی تاریخ، سیره و تمدن اسلامی کے سربراہ نے مزید کہا: آیت اللہ ری شہری کی کتابوں کا ایک بڑا حصہ تاریخ، اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کلمات اور سیرت پر مبنی ہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین رفیعی نے ’تاریخ اور حدیث کا آپس میں ربط اور باہمی کردار‘ کی طرف اشارہ کیا اور کہا: تاریخ اسلام کا ایک بڑا حصہ حتی کہ اسلام سے پہلے کی تاریخ اور بادشاہوں کی تاریخ بھی قرآن، احادیث اور اہل بیت علیہم السلام کی روایات سے لی گئی ہے ۔
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے اکیڈمک فیکلٹی کے رکن نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ ابتدائے اسلام میں تاریخ نویسی اور حدیث نویسی کو ایک دوسرے کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ سمجھا جاتا تھا، کہا: تاریخ اور حدیث کا افق شروعاتی دور میں ایک ہی تھا۔ تاریخ کے نقل کرنے والے حدیث کے راوی تھے، جنھوں نے حدیث کے ساتھ ساتھ تاریخ پر بھی توجہ دی۔
انہوں نے یہ بیان کیا: ابتدائے اسلام میں احکام، تفسیر اور الہیات سمیت تمام علوم کی بنیاد حدیث تھی، قرآن کریم کی تفسیر روائی تقریباً 15 ہزار روایات پر مشتمل ہے ۔
مجتمع آموزش عالی تاریخ، سیره و تمدن اسلامی کے سربراہ نے شیخ صدوق کی کتاب ’’توحید‘‘ کو علم کلام (الہیات) کے موضوع پر حدیث کی ایک بہترین کتاب قرار دیا اور کہا: حدیث نے تاریخ کی تالیف میں اہم کردار ادا کیا اور حدیث ’تاریخ‘ کا ماخذ قرار پائی۔ اس کے بعد تاریخ رفتہ رفتہ حدیث سے الگ ہوتی گئی اور بعد میں حدیث کی تنقید میں تاریخ نے اپنا کردار ادا کیا۔
حجۃ الاسلام والمسلمین رفیعی نے اپنے خطاب کے آخر میں اس بات پر تاکید کی کہ تاریخ اور حدیث کے باہمی کردار پر توجہ دینا بہت ضروری ہے، حدیث نے ابتدا میں تاریخ کی تشکیل میں مدد کی اور تاریخ نے بھی حدیث ضعیف کی تنقید میں مدد کی۔