حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، علامہ سید جواد نقوی نے پاراچنار سانحے پر شدید ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاراچنار کی صورتحال یہ ہے کہ معمولی حادثہ بھی وہاں بڑا بحران ایجاد کر دیتا ہے۔ اساتذہ کے بہیمانہ و سفاکانہ قتل کے افسوسناک واقعہ میں بھی یہی مدنظر تھا کہ بڑی سطح پر ایک اشتعال آور کارروائی کی جائے جس کے بعد لوگ مشتعل ہو کر جوابی کارروائیاں کریں گے اور اس بدامنی میں دہشت گرد داخل ہو کر اپنی کارروائیاں کریں گے جو پہلے قوم کی قربانیوں اور افواج پاکستان کی محنت سے ملک سے باہر نکالے گئے تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بعض نا عاقبت اندیش، خیانت پیشہ اقتدار پسند مجرمین اور بعض ریاستی اداروں کے اندر موجود ناپاک عناصر کی خیانت سے دوبارہ افغانستان سے پاکستان میں جدید ترین نیٹو اسلحے سمیت اور باقاعدہ دعوت ناموں کے ذریعے واپس لائے گئے ہیں۔
علامہ جواد نقوی نے کہا کہ ہر چند بظاہر یہ حوادث اتفاقی نظر آتے ہیں لیکن یہ اتفاقی نہیں ہیں ان کے پیچھے باقاعدہ منصوبہ موجود ہے اور اگر اسے ملکی اور خطے کے حالات کے تناظر میں دیکھیں تو اس طرح کے واقعات پیش بینی شدہ تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے اندر ہمہ گیر اور شدید قسم کا سیاسی، معاشی اور امنیتی بحران ایجاد کر دیا گیا ہے، عالمی سطح پر پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں اور اس بیچ ملک میں دہشت گردوں کے سلیپنگ سیل افغانستان کے حالات میں تبدیلی کی بنا پر دوبارہ متحرک ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اندر ان کے سہولت کار اور ان کے مختلف دھڑے اور جتھے مختلف مسجدوں اور مدرسوں میں اپنی طاقت بحال کرنے میں مصروف ہیں۔ ان دہشت گردوں نے پہلے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ان کے خطرے کو بھانپ کر ان سے معائدے کئے جائیں اور ملک افغانستان کی طرح پرامن طریقے اور مذاکرات کے ذریعے ان کے حوالے کر دیا جائے اور وہی سارے طبقات اور ٹیمیں جنہوں نے افغانستان میں کردار ادا کیا تھا وہ سارے پاکستان میں ابھی فعال ہیں۔ وہ ظلمے خلیل زاد ہو، پاکستان کے اندر ان کے حمایتی و سہولت کار ہوں، عرب دنیا و عالمی سطح پر انکے حمایتی ہوں سب اس وقت پاکستان کے اوپر نظریں جمائے بیٹھے ہیں، اب جبکہ تمام دہشت گرد واپس پاکستان لاکر مختلف ٹھکانوں میں بٹھا دیئے گئے ہیں جنکا گلگت بلتستان، پارا چنار، سوات، وزیرستان، ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر پشاور تک اثر رسوخ ہے جہان پولیس کو مکمل طور پر بے اثر کر دیا ہے جو اپنی حفاظت تھانوں کے اندر کرنے سے بھی قاصر ہے ایسے میں ایک ایک کر کے ان علاقوں میں یہ اپنا تسلط جمانے میں مصروف ہیں ۔
انہوں نے تاکید کی کہ یہاں پر ضرورت ہے کہ پاراچنار کے تمام شیعہ سنی عوام مل کر اس فتنے کو بھانپیں اس کی جڑوں کو پہچانیں کہ یہ ایک بڑے بحران کے لیے پیش خیمہ بنایا جا رہا ہے۔ پارا چنار کی شیعہ سنی مذہبی قیادت، طبقات اور عوام یہ جان لیں کہ یہ فتنہ دونوں ہی کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ دھیان رکھیں کہ ملک کے اندر جو فضاء بنی ہوئی ہے اس فضاء میں خدا ناخواستہ کود نہ جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ نقشہ دوسرے بنائیں، میدان دوسرے سجائیں اور ہمیں اشتعال دے کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں۔
علامہ سید جواد نقوی نے تاکید کی کہ بحرانوں کی اس طرح مدیریت کریں کہ وہ اس طرف نہ جائے جدھر دشمن چاہ رہے ہیں یا جدھر یہ فتنہ گر چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ تجزیہ ہماری مذہبی قیادت کے پاس علاقائی طور پر بھی ہونا چاہیئے ان کی نگاہ ملکی حالات پر ہونی چاہیئے یہ نہ ہو کہ فقط لوکل مسائل میں الجھے رہیں اور جو دشمن نے جال بنایا ہے اس میں اتنے کھو جائیں کہ احساس نہ رہے کہ باقی ملک میں اور عالمی سطح پر پاکستان کے لیے کیا تیاریاں ہو رہی ہیں اسلئے ہوشیاری و بیداری کے ساتھ ان کے فتنے کو اسی نطفے میں ناکام بنا دیں اور بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس موقع پر شیعہ سنی دونوں مل کر اس فتنے کا مقابلہ کریں دہشت گردوں کو علاقے میں داخل نہ ہونے دیں اور اس قسم کی جنایت کرنے والوں کو اتنی سخت سزا دیں کہ پھر تکرار نہ کریں، لیکن یہ مذہبی جھگڑا اور فرقہ واریت نہ بنے اور مسئلے کی نوعیت بھی مذہبی بنیاد پر نہیں ہے۔ در عین حال جو جنایت ہوئی ہے اس کے عاملوں کو اتنی سخت سزا دیں کہ پھر یہ تکرار نہ ہونے پائے چونکہ بالواسطہ یا بلاواسطہ باقی ملک کے اندر جو ماحول ہے وہ پاراچنار کے حالات کے اوپر اثر انداز ہو سکتا ہے اور اس وقت ملک جس سطح پہ چلا گیا ہے وہاں اس طرح کے فتنے بڑا بحران کھڑا کر سکتے ہیں۔ ان گندے اور ننگے سیاستدانوں نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر ملک کو جس حالت میں پہچا دیا ہے وہ صورتحال سب کے مد نظر رہے۔