تحریر:- ڈاکٹر سخاوت حسین سندرالوی (نیویارک)
حوزہ نیوز ایجنسی | قارئین آج بروز منگل 11 جولائی پارا چنار کے شیعیان علیؑ پر دہشت گردوں کی طرف سے بھاری اسلحہ سے لیس مسلسل حملوں کو کئی دن گزر چکے ہیں۔تادم تحریر 10 سے زیادہ شہید اور بیسیوں زخمی ہو چکے ہیں۔
تکفیری دہشت گرد پاکستان بھر سے اجرتی قاتل اور اسلحہ منگوا رہے ہیں۔ ایسے لگتا ہے یہاں جنگل کا قانون نافذ ہے۔ پر امن شہریوں پر شب و روز گولیاں برسائی جا رہیں۔ چاروں طرف سے شہر کو گھیر لیا گیا ہے۔نہیں معلوم قانون نافذ کرنے والے ادارے کس خواب غفلت میں سو رہے ہیں۔
پارا چنار میں 2007 جیسے حالات پیدا کئے جا چکے ہیں۔ نہ معلوم اس کالم کی اشاعت تک کتنی اور لاشیں گر چکی ہوں گی ۔ تاریخ شاہد ہے کہ شیعیان علی ؑ نے کبھی بھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا۔پر انہیں قیام پاکستان سے لے کر اب تک ظلم کی چکی میں پیسا گیا۔
کراچی سے خیبر تک شیعہ کافر کے نعرے پھر سے جنم لے رہے ہیں اور ضیاء الحق کی باقیات شیعہ سنی فسادات کی بھیانک سازش کر رہی ہے۔ جبکہ پاکستان میں شیعہ سنی کی جنگ نہیں ہے۔ امن پسندوں اور دہشت گردوں کی جنگ ہے۔اگر وزراء کی موجودگی میں شیعہ کافر کے نعرے لگائے جائیں گے تو اس کا نتیجہ شیعیان علیؑ کے قتل عام کی صورت میں نکلے گا۔
میں شہداء کے خاندانوں سے اظہار تعزیت کرتا ہوں۔ زخمیوں کی صحت یابی کی دعا کرتا ہوں۔پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے تعصب کی مذمت کرتا ہوں۔ پاک فوج، عدلیہ اور انتظامیہ سے پارا چنار کے گرد و نواح سے انخلاء کی درخواست کرتا ہوں۔قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی استدعا کرتا ہوں۔تکفیری تنظیموں پر از سر نو پابندی لگانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔
دعا ہے کہ اللہ پارا چنار کے مظلوم شیعوں کو بین الاقوامی دہشت گروں کے نرغے سے آزاد فرمائے۔ کے پی کے اور وفاقی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی توفیق دے۔
تکفیری یہ چیز ذہن میں رکھیں کہ پاکستان میں ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا ہے۔جس طرح شام و عراق سے داعش ختم ہوئی اسی طرح پاکستان سے دہشت گردی زوال پذیر ہے۔اسی طرح سکیورٹی اداروں کو سمجھنا چاہئے کہ 1980 جیسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ابھی اگر سدباب نہ ہوا تو افسوس کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا۔