تحریر: مولانا سید شاہد جمال رضوی گوپال پوری
حوزہ نیوز ایجنسی | اس سے قبل بیان کیاگیا کہ کربلا کے عظیم معرکے میں اصحاب رسول کی اچھی خاصی تعداد ملتی ہے ، ان اصحاب نے امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہید ہوکر یہ ثابت کیاہے کہ رسول خداؐکی وفات کے بعد حق پرست کون تھا اور باطل پرست کون ....؟ چونکہ میدان کربلا میں حق وباطل کی فیصلہ کن جنگ ہورہی تھی لہذا اصحاب رسول نے حق کی سربلندی کے لئے نازش آفریں کردار پیش کیا ؛ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم ان اصحاب کی حیات و خدمات سے اجمالی طور پر آشنائی حاصل کریں ؛ یہاں ان اصحاب کا اجمالی تذکرہ کیا جارہا ہے :
١۔ حبیب بن مظاہر اسدی
حبیب بن مظاہر قبیلہ بنی اسد کی نمایاں ترین اور بااثر شخصیت تھے ، بعض علمائے رجال نے مظاہر کے بجائے مظہر لکھاہے ، آپ کی کنیت ابو القاسم تھی ۔آپ کا سلسلۂ نسب یہ ہے :ابو القاسم حبیب بن مظاہر بن رئاب بن اشتر بن جخوان بن فقعس بن طریف بن عمرو بن قیس بن حرث بن ثعلبہ بن دودان بن اسد بن خزیمہ اسدی ۔(١)
فریقین کی کتب رجال میں ان کے صحابی رسول ہونے کی صراحت کی گئی ہے ۔(٢)بلکہ رسول خداؐ کی خصوصی شفقتوں اور عنایتوں کا بھی تذکرہ ملتاہے؛چنانچہ تاریخ میں ہے کہ ایک مرتبہ جناب رسول خداؐاپنےاصحاب کےساتھ تشریف لے جارہے تھے ، آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ امام حسین کچھ بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں ، آپ نے ان بچوں میں سے ایک بچے کی پیشانی چومی اور والہانہ پیار کرنے لگے ۔ اصحاب نے حیرت سے اس پیار و شفقت کی وجہ پوچھی تو رسولؐ نے فرمایا: میں نے ایک بار اس کو دیکھا کہ میرے پیارے حسین کے پیچھے پیچھے چل رہاہے اور حسین کے قدموں کی خاک اٹھا کر اپنے چہرے پر مل رہاہے ، اسی وجہ سے مجھے اس سے محبت ہوگئی ہے۔(٣)کربلا کے معرکے میں آپ کافی سن رسیدہ تھے ، بعض تذکروں میں آپ کی عمر کم سے کم پچھتر برس بتائی گئی ہے ، اس طرح رسول خداؐکی شفقتوں کو کمسن بچے پر شفقت کی حیثیت سے دیکھنا صحیح نہیں ، وفات رسولؐ کےوقت آپ کی عمر کم سے کم پچیس برس متعین ہوتی ہے ، عرب کی نشو و نما کے اعتبار سے یہ عمر جوان رعنا کی ہے ۔
حبیب بن مظاہر مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام کے شاگرد رشید اور صاحب اسرار صحابی تھے ، رجال کشی کے ایک واقعہ سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ صاحب اسرار اور عرفان کے بلند ترین مدارج سے سرفراز تھے ، کشی لکھتے ہیں : ایک بار حبیب بن مظاہر اور میثم تمار اس طرح آمنے سامنے ہوئے کہ دونوں کے گھوڑوں کے کان آپس میں مل گئے ، حبیب بن مظاہر نے فرمایا : میں ایسے آدمی کو دیکھ رہاہوں جس کے آگے کے بال گر چکے ہیں ، وہ خرمے کی تجارت کرتاہے ، خربوزے بیچتا ہے ، اسے علی کی محبت میں سولی پر لٹکایاجائے گا ، اس کے پہلو پر نیزہ ماراجائے گا۔ایک عام انسان ان باتوں کو طنزیہ فقرے سمجھے گا لیکن شمع امامت کے پروانوں کا یہ انداز تکلم ستائش سے بھرپور ہوتاہے۔حبیب بن مظاہر اپنے رفیق میثم تمار کی تعریف کررہے تھے کہ تم کو علیؑ کی محبت میں سولی پر لٹکایاجائے گا ، تم خوش قسمت ہو۔میثم تمار نے بھی حبیب بن مظاہر کی تعریف میں وہی انداز اختیار کیا ، فرمایا: میں بھی ایسے شخص کو دیکھ رہاہوں جس کی داڑھی سرخ ہے ، اس کے سر پر دو گیسو ہیں ، وہ فرزند رسول امام حسین کی نصرت کے لئے جائے گا اور کربلا کے میدان میں شہید ہوگا، اس کا سر نوک نیزہ پر بلند کر کے کوفہ کے بازاروں میں پھرایاجائے گا۔(٤)
حبیب حافظ قرآن بھی تھے ، نماز عشاء کے بعد طلوع فجر تک ایک قرآن ختم کرتے تھے۔(٥)
ان کے سینے میں جہاد و قربانی کی جو تڑپ تھی اس کا مظاہرہ عاشور کے دن بریر کی گفتگو سے ہوتاہے ۔ کشی لکھتے ہیں: حبیب اپنے خیمہ سے مسکراتے ہوئے باہر نکلے تو سید القراء بریر بن خضیر نے کہا: یہ خوشی کا موقع نہیں ۔ حبیب نے جواب دیا: اس سے زیادہ خوشی کا موقع اور کیا ہوگا ، خدا کی قسم ! ہمارے اور حوروں کے درمیان معانقہ میں صرف ایک حملے کا فاصلہ رہ گیاہے ۔(٦)
جب ابو ثمامہ صائدی نے نماز ظہر کی یاد دہانی کرائی تو حبیب بن مظاہر اسدی نے لشکر شام سے کہا: اتنی دیر جنگ روک دو کہ ہم نماز پڑھ لیں اور تم بھی پڑھ لو۔ حصین بن نمیر نے جواب میں کہا: تمہاری نماز قبول نہ ہوگی ۔ حبیب نے جواب دیا : اے خمارہ کے فرزند ! تیری نماز قبول ہو اور فرزند رسول کی نماز قبول نہ ہو۔(٧)
اس کے بعد امام سے اجازت لے کر حملہ آور ہوئے اور حصین کی ناک کاٹ دی ، وہ بد حواس ہوکر گھوڑے سے گرا تو حبیب نے اسے قتل کرنا چاہا لیکن اس کے ساتھیوں نے اسے بچا لیا۔(٨) حبیب نے لشکر پر حملہ کیا اور باسٹھ اشقیاء کو قتل کیا ، کمین گاہ سے بدیل بن حریم تمیمی نے آپ پر نیزے کا وار کیا ، زخموں کی تاب نہ لاکر آپ گھوڑے سے گرے ۔ حصین آپ کی تاک میں تھا موقع پا کر آپ کا سر تن سے جدا کردیا ۔(٩)
آپ کی شہادت سے امام حسین کے چہرے پر پژمردگی کے آثار نمایاں ہوئے ، مقاتل کے فقرے ہیں: بان الانکسار فی وجہ الحسین من قتل الحبیب ۔آپ نے یہ بھی فرمایا :" خدا تمہیں جزائے خیر دے ، تم مکارم پر فائز تھے اور ہر شب ایک قرآن ختم کرتے تھے" ۔(١٠)
حوالجات
١۔ رجال کشی ص ٧٨؛ الاصابہ ابن حجر عسقلانی ج٢ ص ١٤٢
٢۔ الاصابہ ج٢ ص ١٤٢؛ اعیان الشیعہ ج٤ ص ٥٥٤
٣۔ اعیان الشیعہ ج٤ ص ٥٥٤؛ مجالس المومنین ص ٣٨
٤۔رجال کشی ص ٨٧؛ بحار الانوار علامہ مجلسی ج٤٥ ص ٩٢
٥۔ اعیان الشیعہ ج٤ ص ٥٥٤
٦۔ مجالس المومنین شوشتری ص ٣٨ ؛ معرفة اخبار الرجال کشی ص ٧٨
٧۔بحار الانوار ج٤٥ص ٢١؛ فرسان الہیجا ج١ ص ٩٧نقل از مصائب آل محمد ۖص٢٣٤؛مثیر الاحزان ص ٤٨
٨۔بحار الانوار ج٤٥ ص ٢١ ؛ تاریخ طبری ج٥ ص ٤٣٩
٩۔تاریخ طبری ج٥ ص ٤٣٩؛ فرسان الہیجا ج١ ص ٩٧ نقل از مصائب آل محمد ۖص٢٣٤؛اسروایت سے معلوم ہوتاہے کہ حبیب نماز سے قبل شہید ہوئے لیکن دوسری روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ آپ نماز کے بعد درجہ شہادت پر فائز ہوئے۔( ملاحظہ ہو: مقتل ابو مخنف ص ١٠٨ ؛ معالی السبطین ج١ ص ٣٧٦
١٠۔ معالی السبطین ج١ ص ٣٧٦؛ ابصار العین فی انصار الحسین ص ١٠٦