۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
اربعین اور مہدوی حکومت

حوزہ|اربعین کے عظیم اجتماع میں جو چیز جابہ جا ہے وہ محبتوں بھرا عاطفی ماحول اور عشق و محبت سے سرشار انسانی نظام کی تشکیل ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں معاشرتی بندھن اور انسانی اقدار کا ٹھوس اور ملموس اظہار پایا جاتا ہے اور امام حسین علیہ السلام اور ان سے محبت اور ان کے نظریات اس معاشرے میں تمام انسانی اور مذہبی رشتوں کے درمیان کڑی بنتے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی|

تحریر: سیدلیاقت علی کاظمی الموسوی

خلاصہ

دنیا کی سب سے اہم سیاسی- مذہبی تحریکوں میں سے ایک کے طور پر اربعین مارچ کا مختلف زاویوں سے مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ مضمون میں وضاحتی تجزیاتی طریقہ پر اربعین کے جلوس اور مہدوی حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون کے نقطۂ نظر سے اربعین جلوس میں مہدوی حکومت کی خارجی علامات کے ساتھ ساتھ مفہومی اور معنوی علامات بھی شامل ہیں۔ درحقیقت اربعین مارچ مہدوی معاشرے کی ایک نامحسوس علامت ہو سکتی ہے جس میں لوگ معصوم رہبر (عج) کے سائے میں تمام جہتوں سے سعادت و کمال محسوس کریں گےاور صالحین کو دیا گیا اللہ کا وعدہ متحقق ہوتا نظر آئے گا۔مضمون کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ استقبالیہ موکب، زائرین کی تعداد اور مذہبی شکل و شمائل، مذہبی رنگ اور علامتیں اربعین مارچ اور مہدوی حکومت کی ظاہری نشانیاں اور علامتیں ہیں۔خالص عبودیت، عدالت، انسانی اقدار کی مضبوطی ، سماجی بندھن، امن و سلامتی، معاشی ترتیب و تنظیم ، قومیت اور اتحاد ان دونوں عظیم معاشروں کی مفہومی اور معنوی نشانیاں ہیں۔

کلیدی کلمات: اربعین ، اربعین واک ،اربعین مارچ،مہدوی حکومت،مذہبی نشانیاں، مکتب تشیع، مہدوی معاشرہ

مقدمہ

مہدوی حکومت کا قیام، جس کی بنیاد عدل وانصاف اور آزادی پر ہوگی، شیعہ مکتب کے آخری ہدف کے طور پر، اس کی بہت سی فکری اور نظریاتی بنیادیں ہیں۔ قرآن کریم میں صالحین اور مظلوموں کے زمین پر قبضہ کرنے "وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ"( الأنبياء/١٥٠‌)اور باطل کو مٹانے اور حق کے ظہور کا وعدہ "وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ۚ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا"(الإسراء/81) دیا گیا ہے۔

مہدوی معاشرے پر جو حالات حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے زیر انتظام ہوں گے اس حکومت کی علامات کو بیان کرتے ہوئے جیسے عدل، بندگی، سماجی بندھنوں کی مضبوطی، انسانی اقدار کی افزائش، سلامتی، جامع امن، معاشی تنظیم، عقل کی ترقی اور علم کی توسیع جیسے دوسرے اچھے عناوین؛اربعین کے جلوس کو دیکھ کر ہم مہدوی حکومت کی قابل تامل تصویر سامنے لاسکتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان نمایاں مماثلت دیکھ سکتے ہیں۔اربعین مارچ میں شامل افراد کے طرز عمل، اعمال، اصول اور ان کے نقطۂ نگاہ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں موجود افراد کے ذہن میں جو سوچ ہے وہ ایک اور اہم تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے مہدوی حکومت کہتے ہیں۔

امام حسین (ع) کے قیام اور امام مہدی (عجل) کے قیام کے درمیان عمومی تعلق

امام حسین علیہ السلام یزید کی حکومت و خلافت میں موجود انحراف کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، یزید نے اسلامی معاشرے کو پیغمبر اسلام صلیٰ اللہ علیہ وآلہ کی بنیادوں سے بالکل دور کر دیا تھا۔ ابن جوزی کا بیان ہے کہ جب اہل مدینہ کے نمائندے شام سے واپس آئے تو انہوں نے لوگوں سے یزید کا تعارف اس طرح کرایا:"ہم ایک ایسے آدمی کے پاس سےآرہے ہیں جس کا کوئی دین نہیں، شراب پیتا ہے، گانا بجاتا ہے اور کتے سے کھیلتا ہے"۔ مشہور صحابی غسیل الملائکہ حنظلہ کے بیٹے عبداللہ بھی کہتے ہیں:" یزید وہ شخص ہے جو اپنی ماں، بیٹیوں اور بہنوں کا ایک ساتھ اپنے سےنکاح کرتا ہے، شراب پیتا ہے اور نماز کی کوئی پرواہ نہیں کرتا"۔ درحقیقت معاویہ کی خلافت کے بعد، یزید کے آنے کے ساتھ ہی ، یہ دوسری مرتبہ تھا کہ کوئی حرام حلال ہو گیا، کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ نے ابو سفیان کے خاندان اور فتح مکہ سے آزاد ہونے والے تمام افراد پر خلافت کو علیٰ الاعلان حرام کر دیا تھا۔

سلیمان بن صرد خزائی کہتے ہیں: "یزید کی حکومت میں بدعنوانی اس قدر ہے کہ اس نے تمام مسلمانوں کو غمزدہ اور عزادارکر دیا ہے، کیونکہ یزید کھلے عام شراب پیتا ہے، طوائفوں کے ساتھ وقت گزارا کرتا ہے، جوا کھیلتا ہےاور جب بھی جانوروں کا شکار کر کے اپنا دل بہلانے کے لیے شکار پر جاتا ہے تو لوگ خوش ہوتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ یزید نے اپنے آپ کو ایسی چیز سے خوش کیا جو اسلام میں حرام نہیں ہے۔

لہٰذا امام حسین علیہ السلام دین اسلام کے احیاء کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اسی طرح حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف بھی نبوی و علوی روایات و احادیث کے مطابق ایسے وقت میں قیام فرمائیں گے جب اسلامی معاشروں پر حکمرانی انحراف سے آلودہ ہوگی اور امام عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف پیغمبری روایت کو زندہ کرنے اور احیائے سنّت کے لیے قیام فرمائیں گے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلسفۂ قیامِ امام حسین علیہ السلام اور قیامِ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے درمیان ایک رشتہ برقرارہے۔ لہذا اربعین کے موقع پر امام حسین علیہ السلام کی یاد اور قیام سے متعلق تمام بصری اور مفہومی علامتیں حاضرین کے ذہن کو مہدوی حکومت کی طرف لے جاتی ہیں۔ بلاشبہ اربعین کا جلوس، امام حسینؑ کے قیام کی اہم ترین یادگاروں میں سے ایک ہے جو بجا طور پر، قیام و حکومت مہدوی کی ظاہری اور مفہومی علامات کا حامل ہے۔عزاداری، نوحہ، ماتم ، مرثیہ خوانی، سرخ و سبز پرچم، سبیل، پیاس وغیرہ ایسی نشانیاں ہیں جو ہمیں اپنے آپ سے کچھ آگے لے جاتی ہیں۔ایک اور قابل ذکر نکتہ اربعین کی وہ فضا ہے جہاں لوگ جمع ہوتے ہیں، مختلف سرحدوں سے لے کر کربلا تک یہ فضا نشانیوں سے بھری پڑی ہے جو حاضرین کو 1400 سال پہلے اور یوم عاشورہ تک لے جاتی ہے اور اس مستقبل کی طرف جس کا انسانیت کو انتظار ہے۔

اربعین واک؛ رموز و علائم

اربعین واک ایک بڑا اجتماع ہے جس میں قابل ذکر اجزاء اور علامات موجود ہیں جو اس طرح اور اتنے بڑے پیمانے پر کسی اور اجتماع میں نہیں دیکھے جا سکتے۔ یہ اجتماع امام حسین علیہ السلام سے محبت اور حسینی کشش کے آغاز کی علامت ہے جو صدیوں گزرنے کے باوجود آج بھی اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرنے والوں اور دنیا کے تمام آزاد لوگوں کے دلوں کو نجات، عزت اور افتخار کی طرف راغب کرتی ہے۔ یہ عظیم اجتماع تکثیری علامتوں آواز، تصویر، حرکت، موسیقی، رنگ، روشنی اور معنی کا ایک نظام ہے، اور ایک ایسا عمل تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے جسے اگر اچھی طرح سے لوگوں کے سامنے رکھا جائے تو دیگر مباحث کے مقابلے میں سب سے زیادہ اس کا اثر لوگوں پر پڑے گا۔ اگر ہم اربعین کے اجتماع کی علامات کو تقسیم کرنا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ اس اجتماع میں عام طور پر دو قسم کی علامات پائی جاتی ہیں۔ایک ظاہری علامات و نشانیاں اور دوسری مفہومی اور معنوی علامات اور نشانیاں:

  1. ظاہری علامتیں

ظاہری علامتوں سے مراد وہی شعائر ہیں جو اربعین سے متعلق ہیں، دوسرے لفظوں میں ظاہری علامتیں کسی قوم یا گروہ یا کسی قوم و ملّت کے لیے قائم ہوتی ہیں اور ان کی درج ذیل خصوصیات ہیں: سب سے پہلے، اسے ظاہر اور واضح ہونا چاہئے، دوسرے، اسے کسی فکر یا ثقافت کی علامت کے طور پر رکھا جانا چاہئے۔لہٰذا کسی بھی دین و مذہب کا ظاہری پہلو اور ظاہری شکل ہی اس کی ظاہری علامتیں ہیں۔

    1. استقبالیہ موکب

لغت میں موکب کے لغوی معنی سواروں یا پیدل چلنے والوں کی جماعت، لشکر، سپاہ، فوج ، سواری کا جلوس ہے جو بادشاہ کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں۔ "المعانی" میں اس لفظ کے کئی معنی ذکر ہوئے ہیں جیسے: منظم صفوں کی شکل میں آگے بڑھنا، منظم صفوں میں مارچ، جلوس، کارواں، قافلہ، راستہ وغیرہ۔

اربعین کے عظیم جلوس میں ناظرین و حاضرین کو سب سے پہلے جس چیز کا سامنا کرنا پڑے گا وہ سرحدی صوبوں سے کربلا تک بڑی تعداد میں یہ استقبالیہ موکب ہیں جو اپنی نوعیت میں منفرد ہیں۔یہ مواکب امام حسین علیہ السلام اور آپؑ کے مقدس خاندان سے موکب کے بانیوں کی محبت کی علامت ہیں۔ یہ موکب والے انتھک محنت اور پوری سنجیدگی کے ساتھ امام کے زائرین کے استقبال کے لیے اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اور اس طرح کسی بھی خدمت سے دستبردار نہیں ہوتے۔ ان مواکب میں ہر کوئی دوسروں کی خدمت کا سوچ رہا ہوتا ہے اور وہ اپنے اور اپنے اندرونی تعلقات اور دنیوی اسٹیٹس سے آگے نکل چکا ہوتا ہے۔ اور اس قسم کے ہمدردانہ اقدامات مہدوی معاشرے کی علامت ہیں۔ کیونکہ بہت سی موجود روایتوں کے مطابق ظہور کے وقت تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ مہربان اور ہمدرد ہوں گے اور ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور کوئی دشمنی اور بدگمانی باقی نہیں رہے گی جو کہ یہی ہمدردی اور قربت اربعین کے زائرین اور ان کی میزبانی کا شرف حاصل کرنے والےعراق کے لوگوں میں دکھائی دے رہی ہے۔

مہدوی معاشرے میں دوستی اور ہمدردی کی موجودگی کے بارے میں امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:"إِذَا قَامَ اَلْقَائِمُ عَلَيْهِ اَلسَّلاَمُ جَاءَتِ اَلْمُزَامِلَةُ وَ أَتَى اَلرَّجُلُ إِلَى كِيسِ أَخِيهِ فَيَأْخُذُ حَاجَتَهُ لاَ يَمْنَعُهُ ".( إثبات الهداة بالنصوص و المعجزات، جلد۵، صفحہ۱۸۲) قائم آل محمد کے قیام کے وقت جو چیز دیکھی جا سکتی ہے وہ دوستی، اتحاد، تعاون اور محبت اس حد تک ہے کہ ہر کوئی اپنی ضرورت کی چیز دوسرے کی جیب سے لے لیگا، بغیر کسی مشکل اور رکاوٹ کے۔

اسحاق بن عمار کہتے ہیں: میں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں تھا اور ہر ایک کی مدد کرنے اور اپنے بھائی کی غمخواری و دلجوئی اور جو کچھ ایک دوسرے کے حقوق کے سلسلے میں واجب ہے گفتگو ہورہی تھی جسے سن کر میں بڑا حیران ہوا،امامؑ نے فرمایا: "ایسا اس وقت ہوگا جب ہمارا قائم قیام کرے گا، اس وقت ہر ایک پر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور ایک دوسرے کو طاقت دینا فرض ہے"۔ آخر الزمان میں یہ اخلاقی خوبیاں اور انسانی اقدار ہوں گے جو اسلام کی عالمی حکومت کی بنیادوں کو مضبوط کریں گے۔

١-٢- زائروں کا جمِّ غفیر

پہلی نظر میں اربعین زائرین کا بہت بڑا ہجوم شانہ بہ شانہ چلتے جلوس کی شکل میں شیعہ مذہب کی طاقت اور اتحاد کی علامت ہیں اور جو چیز سب سے نمایاں ہے وہ ہے ایک خَیلِ عظیم کاایک لہر کی شکل میں آگے بڑھنا جو سب ایک ہی مقصد کی طرف رواں دواں ہیں۔زائرین ،امام حسین علیہ السلام اور آپ کے نظریات سے دوبارہ بیعت کرنے کے ارادے سے کربلا اور اس معصوم و مظلوم امام کے روضۂ اقدس کی طرف بڑھتے ہیں۔ بارہویں امام کے ظہور کے بعد بھی لوگ مکہ کی طرف بڑھتے نظر آئیں گے اور آپ کی بیعت کریں گے۔ اس سلسلے میں ابو بصیر نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ:" وَ اَللَّهِ لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ بَيْنَ اَلرُّكْنِ وَ اَلْمَقَامِ يُبَايِعُ اَلنَّاسَ"خدا کی قسم گویا میں اس وقت ان کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ وہ لوگوں سے رکن و مقام کے مابین بیعت لے رہے ہیں۔( الغيبہ (نعمانی)، جلد۱، صفحہ۲۶۳ )

١-٣- شکل و شمائل، مذہبی شبیہیں ،رنگ

سرخ حسینی اور مہدوی پرچم،لکھے ہوئے مذہبی نعرے، سر پر حسینی پٹّیاں، اور دیگرمذہبی نشانات اور شبیہیں اس عظیم الشان اربعین کے جلوس میں جا بہ جانظر آتی ہیں۔ ان علامتوں کا مجموعہ سرخ حسینی رزم گاہ میں جہاد کی علامت اور مہدوی سبز راہ میں صلح و امن و سلامتی کے قیام کی علامت ہے۔ زیادہ تر نظر والے رنگوں کے درمیان اور رنگوں کی مدد سے رہتے ہیں، کام کرتے ہیں اور سوچتے ہیں۔

انسانی زندگی میں رنگ کے بغیر شناخت ممکن نہیں۔ رنگ، صحیح یا غلط، کچھ جذباتی، نفسیاتی اور یہاں تک کہ رنگ کو علمی احساسات اور ردعمل کا ذریعہ یا محرک سمجھا جاتا ہے۔ قرآن پاک میں چھ رنگوں میں سے، سفید اور سیاہ کا تذکرہ: (بقره /١٨٧؛ آل عمران /١٠٦؛ نحل /٥٨؛ زمر/٦٠؛ زخرف /١٧) میں ،زرد کا (بقره /٦٩؛ روم /٥١‌؛ ‌‌زمر‌/٢١؛ حديد/٢٠؛ مرسلات /٣٣)، میں، سبزکا (انعام /٩٩؛ يوسف /٤٣ و٤٦؛ يٰس /٨٠‌؛ کہف‌ /٣١‌؛ حج /٦٣؛ الرحمن /٧٦؛ انسان /٢١)،میں،نیلا رنگ (انعام /٦٩) میں، اور سرخ رنگ کا تذکرہ (فاطر/٢٧) میں ہوا ہے،اور براہ راست یا بالواسطہ ان کے نفسیاتی اور بعض اوقات جسمانی اثرات کا حوالہ دیا گیا ہے۔

امام حسین علیہ السلام کی عزاداری میں استعمال ہونے والے رنگ اور پرچم مختلف معنی و مفاہیم رکھتے ہیں۔ سرخ پرچم کا استعمال "يا ثارالله"کے جملے کے ساتھ سرخ حسینی عَلَم کے لیےسید و سالار شہیداں کی شہادت کی خونخواہی کی علامت ہے۔سبز پرچم پر " يا لثارات الحسين" کا جملہ گویا امام حسین علیہ السلام کے لیے عدل و انصاف کی طلب کی علامت ہے۔ سرخ پرچم شہادت کی علامت بھی ہے اور حریمِ امامت وولایت کے دفاع کے لیے آمادگی کی علامت بھی۔ چونکہ دین اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اور مسلمان منتظر ہیں کہ یہ صلح و سکون منجی و موعود آخر الزمان کی حکومت کے زیر سایہ محقق ہو اس لیے سبز پرچم انتظار کی بھی علامت ہے اور مسلمانوں کے درمیا ن صلح و امن کا بھی سِمبل ہے۔درحقیقت سبز جھنڈے مہدوی حکومت اور اس کے ہمہ گیر امن و سکون کی یاد دلاتے ہیں۔کالا رنگ اپنے پیارے کو کھونے کے دکھ اور عزا و مصیبت کو بیان کرنے کی علامت ہے جو اربعین کے اجتماع میں زیادہ تر زائرین کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے اور حسینی زائرین اسے اپنے شہید امام کے لیے سوگ کو بیان کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو کہ فقدان امام کی وجہ سے ان کے میزان غم کو عیان کرتا ہے۔

٢- مفہومی علامتیں

اربعین کی ظاہری شکل و صورت کے علاوہ ایک بڑی اور متاثر کن روح ہے اور یہ علامتوں، سِمبل اور معانی و مفاہیم جہتوں سے بھری ہوئی ہے۔ اربعین ایک الگ سفر ہے اور اس کی مفہومی علامات بھی مختلف ہیں۔مفہومی لحاظ سے اربعین کی بہت سی نشانیاں اور اس کے مفہومی اجزاء ہیں اس لیے ان نشانیوں اور مفاہیم میں سے ہم ان علائم پر "اختصار" کے ساتھ توجہ مرکوز کریں گے جن کے مفاہیم و معانی حکومت مہدوی کی علامات کے ساتھ مشترک ہیں، کیونکہ اس ضمن میں مطالب بہت ہیں اور صفحات کم:

٢-١- عبوديتِ محض

عبودیت خدا کے سامنے سر تسلیم خم اور بارگاہ الہٰی میں خضوع و تذلل سے عبارت ہے اور بندگی کا اعلیٰ ترین اور مضبوط ترین درجہ وہ ہے جب انسان یہ سمجھے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے اور وہ مکمل طور پر خالق سے وابستہ اور اس کا محتاج ہے کیونکہ کمالِ انسانی پوری طرح سے اس کا گدا اور اس کا بھکاری بننے سے جُڑا ہے اور آیات و روایات کی بنیاد پر اس کمال تک پہنچنے کا واحد راستہ"عبودیت" ہے۔

اربعین کا جلوس بھی عبادت الہی کا مظہر ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تمام زائرین اپنے آپ کو بہت پیچھے چھوڑتے ہوئےقرب الہٰی تک پہنچ گئے ہیں۔ کوئی بھی اپنے بارے میں نہیں سوچتا اور ہر کوئی خدا کا قرب حاصل کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ دوسروں کو خود پر فوقیت دینا، اتحاد، ہمدردی، ایثار، پرہزگاری، عفو و درگزر وغیرہ اربعین زائرین کی بندگی کی نشانیاں ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ وہ تمام رشتوں سے منقطع ہو کر اپنے تمام وجود کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر اپنے مکمل انحصار کو محسوس کرتے ہیں، اس سفر میں گویا ان کے ہمراہ خدا مسافر ہوتا ہے۔

مہدوی معاشرے کی اہم خصوصیت جس کا اسلامی تعلیمات اور حتیٰ کہ دیگر مذاہب میں بھی ذکر کیا گیا ہے، زمین پر خدائی حکومت کا ظہور ہے۔معارف اسلامی میں مہدوی معاشرے کا نقشہ یوں بیان ہوا ہے کہ سب سے پہلے روحانیت و معنویت معاشرے کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہوگی اور مہدوی معاشرہ بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کی بندگی و عبودیت کے محور پر قائم ہوگی اور دوسرے اسی روحانیت و عبودیت کی روشنی میں معاشرے میں عدل و انصاف اور خوشحالی آئے گی۔

٢-٢- عـدالت خـواہی

عدل، شیعہ عقائد کے اصولوں میں سے ایک ہے۔ شیعہ کے نقطہ نظر سے یہ ہست و بود عدل کی بنیاد پر ہے اور عدل کے فریم ورک میں منظم ہوا ہے اور اس کا ارتقا بھی عدل و انصاف کے تناظر میں تکامل کا مرحلہ طئے کرے گا۔ عدل کے معنی ہیں افراد کے حقوق کا احترام اور حق دار کو حق دینا۔

ایک بہت بڑی جماعت جو اربعین میں جمع ہوتی ہے اور امام حسین علیہ السلام کے روضہ مبارک کی طرف بڑھتی ہے، وہ اس راستے پر اس عِلم کے ساتھ چلتی ہے کہ امام حسین علیہ السلام ظلم کا مقابلہ کرنے اور عدل کے قیام کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ لہٰذا ان کا بھی فرض ہے کہ وہ عدل کی راہ میں کام کریں۔ یہ بہت بڑا اجتماع دنیا پر حکمرانی کرنے والی موجودہ صورتحال اور بین الاقوامی نظام پر حکمرانی کرنے والی ناانصافیوں کے خلاف ایک بڑا احتجاج ہے۔

عدالت کا قیام مہدوی حکومت کے اہم ترین ارکان میں سے ایک ہے، یہ دعویٰ قرآن اور روایات سے بھی ثابت ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: اگر دنیا کی عمر میں ایک دن سے زیادہ باقی نہ رہے تب بھی خدا اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ وہ میری اولاد میں سے ایک آدمی کو اٹھائے گا جو میرا ہمنام ہوگا... وہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح اس سے پہلے ظلم اور زیادتی سے بھری ہوئی تھی۔ (بحارالانوار، ج ٥١:. 84)۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: "مہدی لوگوں کے گھروں میں گرمی اور سردی کی طرح عدل رائج کردیں گے اور ان کی عدالت ہر جگہ چھائی رہے گی"۔ (بحارالانوار، ج362 :52)۔

٢-٣- ‌سماجی بندھنوں اور انسانی اقدار کی مضبوطی

اربعین کے عظیم اجتماع میں جو چیز جابہ جا ہے وہ محبتوں بھرا عاطفی ماحول اور عشق و محبت سے سرشار انسانی نظام کی تشکیل ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں معاشرتی بندھن اور انسانی اقدار کا ٹھوس اور ملموس اظہار پایا جاتا ہے اور امام حسین علیہ السلام اور ان سے محبت اور ان کے نظریات اس معاشرے میں تمام انسانی اور مذہبی رشتوں کے درمیان کڑی بنتے ہیں۔ جیسے ہی کسی خادم کو کوئی زائر مل جاتا ہے، وہ اپنے تمام وسائل و امکانات اس کے اختیار میں لگا دیتا ہے اور اس کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس میں مقابلے کا رنگ اور بو بھی پایا جاتا ہے اور خادمین زائر کو ڈھونڈنے اور اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے ایک دوسرے سے سخت مقابلہ کرتے ہیں۔

اربعین کے عظیم اجتماع میں انسانی خصوصیات حقیقت کا روپ دھارے سامنے ہوتی ہیں اور ایک حقیقی اور الوہی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ قربانی اور بے لوثی، مہمان نوازی اور زائرین اور عاشقان اہل بیتعلیہم السلام کی خدمت ایسے دور میں جب خود غرضی اور دوسروں سے بے نیازی و لاپروہی کا رواج پھیل رہا ہے، ایک دوچنداں قدروقیمت کی حامل خصوصیت ہے۔ اربعین کے اس عظیم اجتماع میں مہدوی ثقافت بھی غالب نظر آتی ہے۔ اس میں، انسانی اقدار کے سائے میں سماجی بندھن مضبوط ہوتے ہیں، اور لوگ حتی الامکان اخلاقی اصولوں پر عمل کرتے ہوئے مقصد کے قریب پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اربعین کے اجتماع کو دیکھ کر اور میزبان کے ساتھ زائرین اور مہمانوں کا ایک دوسرے سے میل جول اور سلوک دیکھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اربعین میں رائج طرز عمل مہدوی معاشرے کی ایک اہم اور قابل اعتماد علامت ہے۔مہدوی معاشرے میں حسن اخلاق کی حکمرانی کے سلسلے میں امیر المومنین علی علیہ السلام کی ایک روایت میں لوگوں اور حضرت مہدی علیہ السلام کی بیعت کا مفہوم یوں بیان ہوا ہے: ...وہ اس بات پر بیعت کریں گے کہ وہ کبھی چوری نہیں کریں گے۔ جسم فروشی نہ کریں گے، کسی مسلمان کی توہین نہ کریں گے، ناحق کسی کا خون نہ بہائیں گے، کسی کی ساکھ کو نقصان نہ پہنچائیں گے۔۔۔

٢-۴- تحفظ کا احساس اور عالمگیر امن کا مطالبہ

اگرچہ کمزور سیکورٹی انفراسٹرکچر کا شکار عراق کے غیر محفوظ ملک میں شیعہ اور زائرین اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے طویل سفر طے کرتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے وجود نے زائرین کے ارد گرد سیکورٹی کی فضا پیدا کر دی ہے، اور وہ عدم تحفظ کے عروج پر ہیں اور وہ خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ ایک اور قابل ذکر نکتہ بغیر کسی جنگی ہتھیاروں کے پرامن سفر ہے جسے حسینی زائرین کی بڑی تعداد طئے کرتی ہے اور دنیا کی تمام اقوام کو امن اور دوستی کا پیغام دیتی ہے۔ یہ عدم تشدد مارچ، جو انسان دوستی کے خوبصورت مظاہر سے بھرا ہوا ہے، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ شیعہ اقتدار میں رہتے ہوئے پوری دنیا میں امن و سکون چاہتے ہیں۔

روایات کے مطابق،امام مہدی علیہ السلام ایسا سماجی تحفظ پیدا کریں گے جسے بنی نوع انسان نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔وہ فکر و تردّد اور خوف کو ختم کردیں گے، اور معاشرے میں فکر اور خوف پیدا کرنے والوں کو ایک کنارے لگادیں گے۔وہ قانون اور انصاف کا نفاذ کریں گے، اور سماجی تعلقات میں انسانی حقوق اور اقدار کا احترام قائم کریں گے۔

٢-٥- معاشی نظام

اربعین کے عظیم اجتماع میں غریب اور امیر شانہ بشانہ کھڑے نظر آئیں گے اور سب برابر دکھائی دیں گے۔ اس اجتماع میں کوئی ضرورت مند نظر نہیں آئے گا۔استقبال کرنے والے موکب اور عراقی عوام اپنی تمام تر سہولیات کے ساتھ زائرین کی خدمت میں حاضر نظر آئیں گے،کوئی بھی اپنی روٹی پیٹ کا غم کرتا نہیں دکھے گا۔اس عظیم اجتماع میں رقابتی مہمان نوازی کے سبب ہے کہ کوئی بھوکا پیاسا نہ رہے۔ اس عظیم اجتماع میں لوگ احتراماً خوشی سے اپنی جائیدادیں اور مال و دولت زائرین کے سامنے پیش کرتے ہیں؛ ان ملکوتی خصوصیات کے سامنے بہت سی دنیوی اور مادی تزک و احتشام پانی بھرتےنظر آتے ہیں۔

حضرت مہدی (ع) کی عالمی حکومت میں بھی غربت، بے روزگاری، عدم مساوات اور معاشی خلیج نہیں ہوگی اور معیشت اور لوگوں کی زندگی کا انتظام بہت ہی مطلوب صورت میں ہوگا۔ احادیث و روایات کے مطابق مہدوی دور میں لوگ کامل بے نیازی کا احساس کریں گے۔ اس سلسلے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ کا ارشاد ہے: ’’جب میری امت میں مہدی کا ظہور ہوگا۔ اس کے دور میں لوگوں کو وہ نعمتیں ملیں گی جو پہلے کبھی نہیں ملی تھیں۔ آسمان ان پر بارش برسائے گا اور زمین اپنی برکات نازل کرے گی۔ (بحارالانوار، ج ٥٢: ٣٣٦)۔

٢-٦- امّت محوری اور اسلامی اتحاد

قرآن کریم کی آیات اور خداوند سبحان کے فرمان کو دیکھ کر ہم اس اہم نکتے پر پہنچتے ہیں کہ سب سے نمایاں الٰہی کلمات وحدت کے بارے میں ہیں جو ہمیں قرآن کے تحت اتحاد کی طرف بلاتے ہیں، قرآنی مقاصد اور غیر تفرقہ بازی اتحاد کی تشکیل میں سب سے اہم چیز ایک مشترکہ نقطہ پر پہنچنا ہے جس پر تمام مذاہب متفق ہیں۔ تمام اسلامی مذاہب کے درمیان مشترک نقطہ قرآن ہے۔

اربعین مارچ میں لوگوں کا ایک بڑا گروہ جن کے سامنےایک مقصدہے اور جوصرف امام حسین علیہ السلام سے محبت و الفت کے گرد جمع ہوئے ہیں امت اسلامی کے اتحاد کا ایک اہم ترین مظہر ہے۔ایک ایسا اتحاد جو عظیم ترین عالمی تہذیب کی تخلیق کا باعث بن سکتا ہے۔اربعین کے عظیم اجتماع پر حاکم وحدت، حاضرین کے ذہن کو اس وحدت و اتحاد کی طرف کھینچتی ہے جو مہدوی حکومت کے تحت قائم ہوگی۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: جب حضرت قائم (عجل) قیام کریں گے تو کوئی زمین باقی نہیں رہے گی جہاں سے "اشھد ان لا الہ الا اللہ و اشھد محمد رسول اللہ" کی صدا نہ آئے گی۔

امام مہدی (عجل) کے منصوبوں میں سے ایک عالمگیر حکومت ہے جس میں تمام برادریاں ایک مرکز کی پیروی کریں گی اور ایک پالیسی اور پروگرام کے تحت چلیں گی۔اس دور میں ایک عظیم انسانی معاشرہ اور انسانی خاندان تشکیل پائے گا اور دوستی اور محبت تمام بستیوں پر محیط ہو جائے گی اور تاریخ میں تمام انبیاء، ائمہ، مصلحین اور مخیر حضرات کی آرزوئیں پوری ہوں گی۔

نتیجہ

موجودہ تحقیق میں اربعین اور مہدوی حکومت کے ساتھ اس کی مماثلت کی تحقیق کی گئی اور اس سلسلے میں یہ نتیجہ نکلا کہ اربعین اور مہدوی حکومت میں ظاہری اور مفہومی علامتوں کے لحاظ سے نمایاں مماثلت پائی جاتی ہے۔

منابع

  1. قرآن کريم ۔
  2. آلسٹون‌ ، ويليمـ‌ . پي (١٣٨١)، فلسفہ زبان ، احمد ايرانمنش و احمدرضا جليلي، تہران : سہرودي، چاپ اول ۔
  3. احمدی، علی (١٣٨٩)، طلایہ داران تقریب ٢ (شیخ محمود شلتوت آیت شجاعت )، مجمع جہانی تقریب مذاہب اسلامی۔
  4. پور آقایی‌، محسن و محمد فہمیدہ قاسم زادہ و مہدی عمرانی (١٣٨٩) «راہبردہای فرہنگی مہدویت برای جامعہ و دولت زمینہ ساز، بر اساس مدل SWOT»، فصلنامہ مشرق موعود، سال چہارم ، شمارہ ١٥، صص ٣٤-٥۔
  5. تاجیک ، محمدرضا‌ (١٣٨٩‌) «نشانہ شناسی؛ نظریہ و روش »، پژوہشنامہ علوم سیاسی، سال پنجم ، شمارہ ٤، صص ٣٩-٧۔
  6. حائری، محمدعلی (١٣٨٥)، ویژگیہای حکومت و کارگزاران حضرت مہدی (عج ) در قرآن و حدیث ، مجلہ پاسدار اسلام ، شمارہ ٢٨٩، صص‌ ٣١‌-٢٦۔
  7. خزاز قمی رازی، علی (١٤٠١ ق )، کفایہ الاثر، نشر بیدار۔
  8. رضویفر، املی و حسین غفاری (١٣٩٠)، «نشانہ شناسی پیرس در پرتو فلسفہ ، معرفت شناسی و نگرش وی بر پراگماتیسم »، نشریہ فلسفہ‌ ، سال‌ ٣٩، شمارہ ٣٧، صص ٥-٢۔
  9. رضوی زادہ ، ندا (١٣٩٦)، «ادراک و تجربۀ زیستۀ زائران پیادة ایرانی در عراق (مورد مطالعہ : پیادہ روی اربعین آذر ١٣٩٣- عراق )»، فصلنامہ مطالعات و تحقیقات اجتماعی در‌ ایران‌ ، دورہ‌ ٦، شمارہ ٤، صص ٦٣٠-٥٩٥۔
  10. شریفی‌، علی‌ ، (١٣٩٣‌)، رنگ از منظر قرآن ، حدیث و روان شناسی، دوفصلنامہ قرآن و علم ، سال ہشتم ، شمارہ ١٤،١٦٨-١٤٨۔
  11. شفیعا، سعید و محمدجواد درودیان (١٣٩٦‌)، اولین‌ ہمایش‌ بین المللی گردشگری، جغرافیا و محیط زیست ۔
  12. صافی گلپایگانی‌، لطف‌ اللہ (١٣٨٠) منتخب الاثرفی الامام الثانی عشر (عج )، قم : دفتر آیت اللہ صافی۔
  13. صباغیان ، حجت ، (١٣٩٣)، «پیادہ روی‌ اربعین‌ میعادگاہ‌ بزرگ ترین اجتماع انسانی»، سمعک ، سال پنجم ، شمارہ ٧٩، ص ٧۔
  14. طاہرزادہ‌ ، اصغر (١٣٩٥)، اربعین حسینی؛ امکان حضور در تاریخی دیگر، انتشارات لب المیزان ۔
  15. فریشلر، کورت (١٣٥٥)، امام حسین و ایران‌ ، ترجمہ‌ ذبیح‌ اللہ منصوری، انتشارات جاویدان ، چاپ دوم ۔
  16. کلینی، محمد بن یعقوب (١٣٦٥‌)، الکافی‌، تہران : دار الکتب الاسلامیہ ، ج ٢۔
  17. کامل ، سلیمان (١٣٨٦)، روزگار رہایی، ترجمہ علی اکبر مہدی پور، تہران : آفاق‌ ، ج ٢۔
  18. مجلسی‌، محمدباقر‌ (١٤٠٣)، بحارالانوار، ج ١٦۔
  19. مجلسی، محمدباقر (١٤٠٣)، بحارالانوار، ج ٥١۔
  20. مجلسی، محمدباقر (١٤٠٣)، بحارالانوار‌، ج ٥٢‌۔
  21. محمدی‌، جلال (٢٥٣٦)، حسین رہبر نہضت کربلا، انتشارات ساحل ۔
  22. مطہری، مرتضی (١٣٧٧)، عدل الہی، (مجموعہ‌ آثار‌ ج ١) تہران‌ : صدرا۔
  23. مصباح یزدی، محمدتقی (١٣٨٧)، آیین پرواز، تلخیص : جواد محدثی، قم : انتشارات مؤسسہ آموزشی‌ و پژوہشی‌ امام خمینی (رہ )۔
  24. میرباقری، (١٣٨٣) دکترین جامعہ مہدوی، مجلہ پرسمان ، شمارہ ٢٦، صص‌ ٩-٧۔
  25. ویتگنشتاین‌ ، لودویگ‌ (١٣٧٩)، دربارہ رنگ ہا، ترجمہ لیلی گلستان ، تہران : مرکز، چاپ دوم ۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .