۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
مدینه

حوزہ/کون ایسا ہے جو اصلاح و بہتری  اور فساد  کی روک تھام کی ضرورت کا منکر ہو  یہ بدیہات میں ہے کہ اگر کہیں خرابی ہے تو اصلاح ہونی چاہیے، جہاں بھی خرابی ہو اور اصلاح نہ ہو تو خرابی بڑھتی چلی جائے گی اور ایک دن منزل یہ پہنچے گی  کہ اصلاح ممکن نہیں رہے گی۔

تحریر: مولانا سید نجیب الحسن زیدی

حوزہ نیوز ایجنسی | کون ایسا ہے جو اصلاح و بہتری اور فساد کی روک تھام کی ضرورت کا منکر ہو یہ بدیہات میں ہے کہ اگر کہیں خرابی ہے تو اصلاح ہونی چاہیے، جہاں بھی خرابی ہو اور اصلاح نہ ہو تو خرابی بڑھتی چلی جائے گی اور ایک دن منزل یہ پہنچے گی کہ اصلاح ممکن نہیں رہے گی۔

فرض کریں آپ کے دانت میں معمولی خرابی ہے کوئی کیڑا لگ گیا ہے ایسے میں اگر فورا دانت کے ڈاکٹر کے پاس چلے جائیں تو ہو سکتا ہے معمولی سے اوزاروں سے وہ دانت کی صفائی ستھرائی کر دے اور کیڑا نکال دے یا روٹ کینلنگ کے ذریعہ مسئلہ حل کر دے اور آپ کی مشکل حل ہو جائے لیکن اگر آپ نے مسلسل بے توجہی کی تو ہو سکتا ہے ایک منزل وہ آئے کو پورے دانت کو ہی کھینچ کر نکالنا پڑے اور اسکے علاوہ کوئی چارہ کار نہ رہے ۔ایک کرتا اگر ذرا سا پھٹا ہے تو اسے رفو کیا جا سکتا ہے لیکن اگر اس کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو ممکن ہے اتنا پھٹ جائے کہ اب رفو سے کام ہی نہ رہ جائے ، کینسر کے پھوڑے کی تشخیص اگر بروقت ہو جائے تو علاج ممکن ہے لیکن مرض بڑھتا چلا جائے تو اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا جب معاملہ چوٹھی اسٹیج پر پہنچ چکا ہو ، جس طرح اصلاح و علاج بروقت ضروری ہے ویسے ہی مراحل اصلاح پر بھی توجہ ضروری ہے اگر معمولی دوا کی گولی سے کام چل جاتا ہے تو انجکشن کی ضرورت نہیں اگر انجکشن سے کام چلتا ہے تو آپریشن فضول ہے ، فرض کریں دانت کا معمولی درد ایک ٹیبلٹ سے ختم ہو سکتا تھا اور کوئی دانت ہی اکھاڑ ڈالے تو یہ اصلاح نہیں فساد ہے لہذا ضروری ہے ہر چیز کے علاج اور ہر چیز کی اصلاح کے وقت، مرض پر بھی توجہ ہو اور تشخیص کی صلاحیت بھی انسان کے پاس ہو، ساتھ ہی ساتھ انسان کو پتہ ہو کب کیا کرنا چاہیے طریقہ کار کیا ہونا چاہیے ۔

آج ہمارے معاشرے میں بہت سے امراض ہیں جنکے علاج کی ضرورت ہے لیکن کہیں کہیں ایسا ہوتا ہے اولویتوں کا لحاظ نہیں ہوتا نزاکتوں کو نہیں سمجھا جاتا نفسیات سے تغافل برتا جاتا ہے جس کی بنیاد پر اصلاح کے نام پر فساد لازم آتا ہے۔

حضور ص کی حیات طیبہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر ہم آگے بڑھیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ معاشرے میں بعض جگہوں پر خرابیاں اس لئے پیدا ہوتی ہیں کہ ہمارا طریقہ کار وہ نہیں ہوتا جو ہونا چاہیے توجہ رہے کہ جتنی لوگوں کی ہدایت اہم ہے اتنا ہی روش و انداز بھی اہم ہے۔

مشکلات کی تہہ تک پہنچ کر اسے حل کرنا:

آج ہمارے یہاں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ ہم یہ تو چاہتے ہیں کہ لوگ ہدایت پائیں راہ راست پر رہیں لیکن اس کے لئے ہمارے پاس بسا اوقات روش و طریقہ کار کا فقدان ہوتا ہے صحیح روش نہ ہونے کی بنا پر ہم بجائے ہدایت کے گمراہی کے پھیلنے کا سبب بن جاتے ہیں آپ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ کی زندگی میں دیکھیں آپ کا انداز تبلیغ کیا تھا ؟ حضور ص کا انداز یہ تھا کہ مسائل کی تہہ تک جاتے تھے اور کسی بھی انحراف کی جڑ کو تلاش کر کے اسے حل کرنے کی کوشش کرتے تھے چنانچہ ملتا ہے کہ حضور ص کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے اپنی بیماریوں کو اس طرح بیان کیا یا رسول اللہ ص! میں جھوٹ بولتا ہوں گناہ بھی مجھ سے سرزد ہوتے ہیں ان گناہوں میں دو بڑے گناہ ہیں جو میں انجام دیتا ہوں ۱۔ شراب پیتا ہوں ۲۔ زنا بھی کرتا ہوں ۔ یا رسول اللہ ص! میں بیک وقت تمام گناہوں سے خود کو نہیں بچا سکتا ہاں ایک گناہ جس سے آپ مجھے روکیں گے اس سے خود کو روک لونگا انشاء اللہ۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس جوان کو دیکھا اور کہا اگر ان گناہوں میں ایک گناہ سے روکوں گا تو رک جائے گا اس نے فورا کہا: یا رسول اللہ ص آپ پر قربان بالکل رک جاونگا اب حضور ص نے اسے مخاطب کر کے کہا: تو ٹھیک ہے مجھ سے وعدہ کرو کہ جھوٹ نہیں بولو گے ۔ اسے لگا یہ کون سی بات ہے شراب پینے کو حضور ص نے روکا نہیں زنا کرنے سے بھی منع نہیں کیا جھوٹ سے ہی تو روکا ہے فورا حامی بھر لی یا رسول اللہ کوئی بات نہیں میرا وعدہ ہے جھوٹ نہیں بولونگا ، اب پیغمبر ص نے کہا تم جھوٹ سے خود کو بچا لو باقی چیزوں سے خود ہی بچ جاوگے ، اس جوان کی سمجھ میں نہیں آیا ایسا کیسے ہو سکتا ہے لیکن رسول ص سے وعدہ کیا تھا تو کہا وعدہ نہیں توڑونگا جھوٹ سے بچ کر دکھاونگا اب پیغمبر ص سے جدا ہوا دوستوں کے پاس پہنچا دوست شراب پینے کے لئے جا رہے تھے کہا تم بھی چلو مزے کریں گے جام سے جام ٹکرائیں گے موج مستی کریں گے فورا تیار ہو گیا راستے میں خیال آیا میں نے تو پیغمبر ص سے وعدہ کیا تھا جھوٹ نہیں بولونگا اب اگر پیغمبر ص نے پوچھ لیا تو جواب کیا دونگا ؟ اگر کہتا ہوں نہیں پی تو یہ جھوٹ ہے لہذا اپنے دوستوں سے کہتا ہے تم لوگ جاو میں نے پیغمبر ص سے جھوٹ نہ بولنے کا وعدہ کیا ہے شراب ایسا گنا ہ ہے جو خدا کے غضب کا سبب ہے اگر انجام دونگا تو خدا غضبناک ہوگا اس پر مجھے جھوٹ بھی بولنا پڑے گا ، اسی طرح زنا کے سلسلہ سے ہوا جب اس نے یہ فعل انجام دینا چاہا ذہن میں خیال آیا حضور ص نے پوچھ لیا تو کیسے سامنا کرونگا جھوٹ بولا تو یہ وعدہ خلافی ہوگی لہذا کہتا ہے ایسا کام کرنے کا فائدہ ہی کیا جسے کر کے چھپانے کی ضرورت پڑے ، اس طرح ایک گناہ سے خود کو بچا کر اس نے دو اور گناہوں سے بچا لیا یہ پیغمبر ص کا انداز تبلیغ تھا ۔ اتنے خوبصورت انداز میں حضور ص نے اپنی بات کو رکھا کہ ایک گناہگار شخص راہ راست پر آگیا۔

حضور ص کے انداز تبلیغ کا ایک اور نمونہ:

ایک شخص آپ کے پاس آیا، یا رسول اللہ ص مجھے نصیحت فرمائیں کچھ موعظہ کریں آپ نے فرمایا: اگر موعظہ و نصیحت کرونگا تو کیا تم قبول کر لو گے کہا بالکل یا رسول اللہ ص یہی غرض لے کر آیا ہوں کہ آپ کچھ بتائیں تو اسکے مطابق عمل کروں حضور ص نے ایک بار پھر سوال کیا کہ کیا تم قبول کروگے جو میں کہونگا کہا یا رسول اللہ بے شک قبول کرونگا آپ نے فرمایا میرا موعظہ اور میری نصیحت یہ ہے کہ جب بھی کسی کام کے بارے میں سوچو تو اس کے انجام پر نظر رکھو اگر دیکھو کہ انجام کار تمہیں پشیمان نہیں ہونا پڑے گا تو ہی قدم آگے بڑھاو لیکن اگر دیکھو کہ مشکل میں پھنس جاوگے تو اس طرف مت جاو جو بھی قدم اٹھانا چاہتے ہو اٹھانے سے پہلے اس کے نتیجے پر غور کرو کہ تمہیں کیا حاصل ہوگا اپنے ہر قدم کے بارے میں فکر کرو اگر یہ قدم حق ہے اس میں تمہاری کامیابی ہے اور خیر ہے تو یہ قدم اٹھاو نہیں تو پیچھے ہٹ جاو اگر ہدایت و حقیقت کے خلاف ہو اگر تمہارے لئے شر کا سبب ہو تو ٹہر جاو کتنے خوبصورت انداز میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے موعظہ و نصیحت فرمائی یعنی انسان یہ دیکھ لے کہ اس دنیا کے حصول کے لئے جو قدم اٹھا رہا ہے سمجھ لے کہ کیا کچھ اسے حاصل ہونے والا ہے اگر کسی کا حق مار رہا ہے تو کیا حق مار کر اس دنیا میں ہمیشہ جی لے گا یا پھر اسے جواب دینا ہوگا اگر کہیں جواب دینا ہوگا تو پھر کیوں ایسا کام کرتا ہے کہ جس کی وجہ سے نہ صرف پشیمانی ہو ، ہر انسان کے سر پر موت منڈلا رہی ہے انسان اس فنا ہونے والی دنیا میں ایسا کام کیوں کرے جس کی بنا پر اس دنیا و آخرت دونوں میں ہی اسے ملامت کا سامنا کرنا پڑے ۔

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تبلیغ کا انداز کچھ ایسا تھا کہ ہر کوئی متاثر ہوتا تھا نہ صرف متاثر ہوتا تھا بلکہ کمال کی اس بلندی پر حضور ص نے پہنچا دیا تھا کہ آپ کے تعلیمات کی بنیاد پر لوگ بلند نظری کے ساتھ ان چیزوں کا مطالبہ کرتے تھے جو عام طور پر انسان کے ذہن میں نہیں سماتیں لیکن یہ حضور ص کی تعلیمات کا اثر تھا کہ دنیا کی نا پاٗئداری سے لوگ واقف تھے اور اس موقع پر بھی جب ان سے کہا جاتا کہ کچھ مانگو دنیاوی چیزوں کا مطالبہ نہیں کرتے تھے ایک بار حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے ایک خادم ربیعہ سے پوچھا کہ ربیعہ بن کعب یہ بتاو اتنے دنوں سے تم میری خدمت کر رہے ہو ابھی تک تم نے مجھ سے کچھ مانگا نہیں میں تمہیں کچھ دینا چاہتا ہوں ، ربیعہ نے کہا یا رسول اللہ ص مجھے اجازت دیں ذرا سوچ لوں آپ سے کیا مانگوں ؟ کہا ٹھیک ہے جاو سوچو ربیعہ نے رات بھر سوچا صبح آئے اور کہا یا رسول اللہ ص بس اتنا چاہتا ہوں کہ جب قیامت کا دن آئے محشر کا وقت ہو تو ہنگام محشر میرا ہاتھ تھام کر مجھے بہشت کی طرف لے جائیے گا ، حضور ص نے فرمایا تمہیں یہ کس نے سکھایا کہ محشر میں تم مجھ سے یہ چاہو کہ میں تمہارا ہاتھ تھام کر تمہیں ساحل نجات تک پہنچا دوں ، ربیعہ نے کہا یا رسول اللہ ص پوری رات سوچتا رہا ، میں نے خود سے کہا رسول اللہ ص مجھے کچھ دینا چاہتے ہیں اب کچھ ایسا مانگوں جو میرے کام آ سکے میں نے سوچا مال مانگتا ہوں تو مال تو مل جائے گا لیکن میرے کس کام کا سب یہیں چھوٹ جاٗے گا ، اگر اولاد مانگتا ہوں تو اولاد بھی موت کے بعد مجھ سے جدا ہو جائے گی ، اب میں نے سوچا ایک ایسی چیز مانگتا ہوں جو میرے کام آئے اور باقی رہے تو میں نے دیکھا کہ کوئی ایسی چیز نہیں جسے بقا ہو ہر چیز فانی ہے لہذا میں نے آخرت کی بقا کو دیکھتے ہوئے سوچا کیا ہی بہتر کہ آپ سے یہ چاہوں کہ قیامت کے دن آپ میرا ہاتھ تھام لیں اب اس سے بڑھ کر کیا ہوگا ۔ یہ تعلیمات پیغمبر ص ہی کا اثر تھا کہ ربیعہ نے دنیا کی کسی چیز کا مطالبہ نہیں کیا ، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کے موقع پر ہمیں بھی اگر عیدی چاہیے تو ہمیں اپنی نظر کو بلند کرنا ہوگا۔

پیغمبر ص کا معنی خیز تبسم:

روایت میں ہے کہ ایک دن حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھ کر تبسم فرمایا: کسی نے سوال کیا یا رسول اللہ ص اس مسکراہٹ کا سبب کیا ہے؟

آپ نے جو جواب دیا اسکا مفہوم یہ ہے میں نے آسمان میں دیکھا دو فرشتے آسمان سے زمین پر نازل ہوئے تاکہ اس بندے کی عبادت کا ثواب لکھیں جو کہ اپنی ایک مخصوص جگہ پر بیٹھ کر اللہ کی عبادت کرتا تھا اپنے رب کا سجدہ کرتا تھا لیکن جب یہ فرشتے اس جگہ پہنچے جہاں یہ عبادت کیا کرتا تھا تو اسے اپنی جگہ پر نہ پاکر بستر علالت پر پایا فرشتوں نے آسمان کی طرف پرواز کی اور مالک سے کہا پروردگار جس بندے کا ہم ثواب لکھنے گئے تھے وہ تو بستر بیماری پر ہے خدا نے فرشتوں کو حکم دیا: جب تک وہ بستر بیماری پر ہے تم اس کے لئے وہی ثواب لکھو جو اس کی عبادت کا لکھتے تھے یہ میرے اوپر ہے کہ میں اس کے نیک اعمال کی جزا اسے دیتا رہوں گا چاہے وہ بستر بیماری پر ہی کیوں نہ ہو [1]۔ اس طرح کے بہت سے نمونے ہمیں سیرت پیغمبر ص میں مل جائیں گے جن پر توجہ و عمل معاشرے کے نکھار کا سبب ہے امید ہے کہ ہم رشد و ہدایت کی راہ میں اپنے مزاج سے زیادہ سیرت پیغمبر ص پر توجہ رکھیں گے جس سے بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔

[1] فروع کافی، جلد ۱ ص ۳۱

تبصرہ ارسال

You are replying to: .