منگل 4 فروری 2025 - 05:00
امام زین العابدین (ع) کا بعد از کربلا تاریخی کردار اور احیاء مکتب تشیع

حوزہ/کربلا کی بے مثال قربانی کے بعد، جب ظاہری طور پر بنی امیہ کا اقتدار مستحکم ہو چکا تھا، تب ایک سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے: امام زین العابدینؑ نے اس جبر و استبداد کے خلاف عملی جہاد کیوں نہ کیا؟ کیا ان کی خاموشی کمزوری کی علامت تھی یا ایک نئی حکمت عملی کا آغاز؟

تحریر: مولانا محمد احمد فاطمی

حوزہ نیوز ایجنسی|

کیا امام زین العابدینؑ کی خاموشی، ایک حکمت عملی تھی؟

کربلا کی بے مثال قربانی کے بعد، جب ظاہری طور پر بنی امیہ کا اقتدار مستحکم ہو چکا تھا، تب ایک سوال ذہنوں میں ابھرتا ہے: امام زین العابدینؑ نے اس جبر و استبداد کے خلاف عملی جہاد کیوں نہ کیا؟ کیا ان کی خاموشی کمزوری کی علامت تھی یا ایک نئی حکمت عملی کا آغاز؟

کیا تحریکِ کربلا امام حسینؑ کے بعد ختم ہو چکی تھی؟

بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کربلا میں شہادتوں کے بعد تحریک ختم ہو گئی، لیکن امام زین العابدینؑ کے 34 سالہ دورِ امامت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک نئی فکری و روحانی جدوجہد کا نقطۂ آغاز تھا۔ کیا تاریخ میں کسی اور نے ایسا طریقہ اختیار کیا کہ بغیر تلوار اٹھائے ایک مردہ معاشرے میں فکری بیداری پیدا کی؟

کربلا کے بعد: امام زین العابدینؑ کا ہدف کیا تھا؟

امامؑ نے ظلم کے خلاف جنگ کے بجائے ایک اور میدان چنا— فکری اور روحانی احیا کا میدان۔ بنی امیہ کی ظاہری حکومت قائم تھی، لیکن امامؑ نے ایسی گہری بنیادیں رکھیں جنہوں نے تشیع کو استحکام بخشا۔

١. دعا اور مناجات کے ذریعے انقلابی فکر کی ترویج

امام زین العابدینؑ نے اپنی حکمت عملی کا آغاز "صحیفہ سجادیہ" کی شکل میں کیا، جو ایک انقلابی دستور بھی تھا اور معنوی ارتقا کا ذریعہ بھی۔ یہ محض دعاؤں کا مجموعہ نہیں، بلکہ ایک فکری انقلاب کا بیج تھا جو امت کو اس کے کھوئے ہوئے مقام کی طرف لے جانے کے لیے تھا۔

امامؑ فرماتے ہیں:اللهم إنك أيدت دينك في كل أوان بإمام أقمته علماً لعبادك، ومناراً في بلادك، بعد أن وصلت حبله بحبلك، وجعلته الذريعة إلى رضوانك(اے اللہ! تو نے ہر زمانے میں اپنے دین کی تائید کے لیے ایک امام کو مقرر فرمایا، جو تیرے بندوں کے لیے علم اور تیری سرزمین کے لیے نور بنا، اور تو نے اس کی رسّی کو اپنی رسّی سے جوڑ دیا اور اسے اپنی رضا کا وسیلہ بنا دیا۔)

یہ الفاظ امامؑ کی فکر کو واضح کرتے ہیں— ان کا ہدف یہ تھا کہ لوگ اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور طاغوتی طاقتوں کو بے نقاب کریں۔

٢. اہلِ بیتؑ کے حقوق اور مقام کا دفاع

کربلا کے بعد حکمرانوں نے اہلِ بیتؑ کو بالکل الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی، لیکن امام زین العابدینؑ نے اپنے طویل سجدوں اور مناجات کے ذریعے اہلِ بیتؑ کے مقام کو نمایاں رکھا۔ جب بھی امامؑ کسی موقع پر گفتگو فرماتے، وہ رسول اللہؐ کے خانوادے کی مرکزیت کو اجاگر کرتے۔

امامؑ نے اپنے ایک خطبے میں فرمایا:أنا ابن مكة ومنى، أنا ابن زمزم والصفا، أنا ابن محمد المصطفى، أنا ابن علي المرتضى، أنا ابن فاطمة الزهراء، أنا ابن خديجة الكبرى

(میں مکہ اور منیٰ کا فرزند ہوں، میں زمزم اور صفا کا بیٹا ہوں، میں محمد مصطفیٰؐ کا بیٹا ہوں، میں علی مرتضیٰؑ کا بیٹا ہوں، میں فاطمہ زہراءؑ کا بیٹا ہوں، میں خدیجہ کبریٰؑ کا بیٹا ہوں۔)

یہ جملے یزیدی دربار میں کہے گئے، جہاں امامؑ نے اپنے خاندان کی حقیقت کو زندہ رکھنے کا بیڑا اٹھایا۔

٣. مدینہ میں علمی و فکری تحریک کی بنیاد

امام زین العابدینؑ نے مدینہ میں ایک فکری تحریک کی بنیاد رکھی، جہاں مختلف علوم کی ترویج ہوئی۔ امامؑ کے شاگردوں میں سعید بن جبیر اور زہری جیسے نامور محدثین شامل تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر امامؑ کی یہ علمی کاوشیں نہ ہوتیں، تو کیا اسلامی تعلیمات اپنی حقیقی روح کے ساتھ باقی رہ پاتیں؟

کیا امام زین العابدینؑ کی تحریک ایک خفیہ انقلاب تھی؟

امام زین العابدینؑ نے ایک ایسا فکری اور روحانی انقلاب برپا کیا جو تلوار کے بغیر بھی موثر تھا۔ یہ طریقہ کار بظاہر خاموش نظر آتا ہے، مگر حقیقت میں ایک ایسا نظریاتی دھماکہ تھا جس نے بنی امیہ کی جڑیں کمزور کر دیں۔

اب سوال یہ ہے کہ:

اگر امام زین العابدینؑ کی یہ حکمت عملی نہ ہوتی، تو کیا تشیع اپنی اصل صورت میں باقی رہ پاتا؟

کیا امامؑ کی جدوجہد ہمیں یہ پیغام نہیں دیتی کہ فکری بیداری کے بغیر کوئی بھی انقلاب دیرپا نہیں ہو سکتا؟

امام زین العابدینؑ نے دکھا دیا کہ "انقلاب ہمیشہ تلوار سے نہیں، بلکہ فکر، دعا، تعلیم اور صبر سے بھی برپا ہوتے ہیں!"

یہی وہ تاریخی حقیقت ہے جس پر غور کرنا آج بھی امتِ مسلمہ کے لیے ضروری ہے!

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha