حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، قم المقدسہ میں مقیم پاکستان کی اسلامک اسکالر سیدہ بشری بتول نقوی نے اپنے ایک بیان میں غزہ کی صورتحال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسلامی دنیا کی خاموشی پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "غزہ آج ایک ایسا شہر بن چکا ہے جس کی صدائیں پوری دنیا کے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ یہ شور صرف بم دھماکوں کا نہیں بلکہ انسانیت کے لہو، معصوم بچوں کی سسکیوں، ماؤں کی فریادوں اور بھوکی پیاسی انسانیت کی چیخوں کا شور ہے، جو سنائی بھی دے رہا ہے اور دکھائی بھی۔ مگر افسوس، دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔"
عالمہ سیدہ بشری بتول نے کہا کہ "بعض لوگ اس خاموشی کو مصلحت قرار دے رہے ہیں، کچھ یہ کہہ کر خاموش ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، کچھ خاموشی سے اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں، تو کچھ قانون کا بہانہ بنا کر ظلم پر خاموش ہیں۔ جبکہ اکثریت صرف اپنے مفادات کی خاطر اسرائیل کی مصنوعات سے لطف اندوز ہو رہی ہے۔" انہوں نے مسلم حکمرانوں سے سوال کیا: "57 اسلامی ممالک، لاکھوں کی تعداد میں فوجیں، اور ایٹمی طاقت رکھنے کے باوجود کیوں خاموش ہیں؟ کیا یہ ایمان کی کمزوری ہے؟ کیا خوف غالب آ چکا ہے؟ غزہ میں بہتا لہو، ماؤں کی فریادیں، بچوں کی چیخ و پکار، کیا یہ سب انہیں بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں؟"
عالمہ بشری بتول نے قرآن کی سورہ نساء کی آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "وما لکم لا تقاتلون فی سبیل اللہ... "کیا ہم نے قرآن کی یہ آیت بھلا دی ہے؟ یا اب بھی کسی اور قانون کے انتظار میں ہیں؟" انہوں نے یاد دلایا کہ حضرت صالحؑ کی اونٹنی کو چند افراد نے قتل کیا، مگر عذاب پوری قوم پر آیا کیونکہ باقی سب خاموش تھے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ "2025 کا سال ہماری آئندہ نسلوں کے لیے تاریخ کا سیاہ باب بنے گا، جب غزہ میں ظلم کی انتہا تھی، اور دنیا میں اس ظلم سے بھی بڑھ کر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔" انہوں نے عالمی ضمیر اور خصوصاً مسلم حکمرانوں سے مطالبہ کیا کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کریں، اتحاد کا مظاہرہ کریں اور مظلوموں کی عملی مدد کریں، کیونکہ یہی حقیقی اسلام کا پیغام ہے۔
آپ کا تبصرہ