تحریر: عرض محمد سنجرانی
حوزہ نیوز ایجنسی| گریٹر اسرائیل کا منصوبہ اب محض ایک نظریاتی خواب یا کتابی تصور نہیں رہا، بلکہ مسلم دنیا میں اسے اسرائیلی ریاست کی جاری اور فعال پالیسی سمجھا جا رہا ہے، نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کی خارجہ پالیسی، عسکری اقدامات اور سفارتی حکمت عملی نے عرب اور اسلامی دنیا میں اس یقین کو جڑوں تک مضبوط کر دیا ہے کہ تل ابیب گریٹر اسرائیل کو اپنی اولین ترجیح بنا چکا ہے، فلسطینیوں پر جاری مسلسل دباؤ، غزہ اور مغربی کنارے میں فوجی کارروائیاں، بیت المقدس کے گرد تحقیقاتی اور تعمیراتی منصوبے، سفارتی سطح پر امریکی اور مغربی حمایت کے ساتھ اسرائیل کی خود اعتمادی، ان سب کو مسلم دنیا ایک مربوط پالیسی کے حصے کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
یہودی مذہبی روایات میں بیت المقدس اور مندر کی مرکزی حیثیت صدیوں سے بیان کی جاتی رہی ہے، ان روایات میں مندر کے دوبارہ قیام، مسیحا کی آمد اور اسرائیلی خودمختاری کے مکمل بحال ہونے جیسے عقائد شامل ہیں، آج اسرائیل میں بڑھتی ہوئی مذہبی سرگرمیاں، عبادت گاہوں میں حاضری کے اعداد و شمار میں نمایاں اضافہ اور یہودی فرقوں کے درمیان مشترکہ عبادت و دعاؤں کے مناظر مسلم دنیا کے نزدیک محض مذہبی رجحانات نہیں بلکہ گریٹر اسرائیل منصوبے کے نظریاتی اور عملی مظاہر ہیں، اسرائیلی اعداد و شمار کے مطابق 2015ء میں یہودی آبادی کا 33% ہفتہ وار عبادت کرتا تھا جو 2024ء میں بڑھ کر 41% ہوگیا، مسلم دنیا کے تجزیہ کار اس بڑھتی ہوئی مذہبی شدت کو گریٹر اسرائیل منصوبے کی نظریاتی بنیاد سمجھتے ہیں اور اسے ایک ایسی تیاری تصور کرتے ہیں جو اسرائیل کے بڑے ہدف کا حصہ ہے۔
بیت المقدس اور اس کے نواح میں زیر زمین منصوبوں پر بھی مسلم دنیا میں یہ یقین پایا جاتا ہے کہ یہ محض آثار قدیمہ کی تحقیق یا سیاحت کے فروغ کا منصوبہ نہیں بلکہ مستقبل کے بڑے سیاسی و مذہبی ہدف کے لیے طویل المدت تیاری ہے، سٹی آف ڈیوڈ اور دیگر مقامات پر جدید امیجنگ اور کھدائی کے منصوبے اسی تناظر میں دیکھے جا رہے ہیں، نیتن یاہو کی پالیسیوں اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں کو مسلم دنیا اسی گریٹر اسرائیل منصوبے کے لیے دباؤ اور پیش بندی کے طور پر دیکھ رہی ہے، عرب اور اسلامی ممالک میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اقدامات اب محض فلسطین تک محدود نہیں بلکہ پورے خطے میں اثرورسوخ بڑھانے اور مسلم ممالک کو کمزور کرنے کے لیے ہیں۔
یہ بیانیہ اب خدشات سے آگے بڑھ کر یقین کی شکل اختیار کر چکا ہے کہ اسرائیل اپنے اثرورسوخ، فوجی طاقت اور عالمی حمایت کے ذریعے گریٹر اسرائیل منصوبے کو عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے، عرب اور اسلامی ممالک کے رہنما اور عوام اسے ایک ایسی پالیسی سمجھتے ہیں جو فلسطینی ریاست کے وجود اور مسلم دنیا کی خودمختاری کے لیے کھلا چیلنج ہے، اس بیانیے نے خطے میں عدم اعتماد، سفارتی تناؤ اور عسکری حکمت عملیوں کو نئی سطح پر پہنچا دیا ہے، پاکستان سے لے کر مراکش تک اور خلیج سے ترکی تک اب یہی سوچ غالب ہے کہ نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیلی قیادت نے مذہبی پیش گوئیوں، تاریخی دعوؤں اور سیاسی عزائم کو یکجا کر کے گریٹر اسرائیل منصوبے کو اپنی ریاستی ترجیحات کا حصہ بنا لیا ہے۔
بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادیں فی الحال اس منصوبے کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہیں مگر مسلم دنیا میں یہ یقین پختہ ہو چکا ہے کہ اسرائیلی قیادت مذہبی پیش گوئیوں اور تاریخی دعوؤں کو بنیاد بنا کر گریٹر اسرائیل کی تشکیل کے لیے اپنی ترجیحات طے کر چکی ہے، اسی لیے یہ کالم اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ اب معاملہ محض خدشات کا نہیں بلکہ ایک واضح اور محسوس پالیسی کا ہے جس کا جواب مسلم ممالک کو متحد ہو کر دینا ہوگا، عرب لیگ، او آئی سی اور دیگر علاقائی و عالمی اداروں کے اجلاسوں میں اس منصوبے کے خلاف آواز بلند کرنا کافی نہیں رہا بلکہ اب عملی اقدامات، مشترکہ پالیسی سازی اور سفارتی دباؤ ناگزیر ہو چکا ہے تاکہ علاقائی امن اور خودمختاری کو محفوظ رکھا جا سکے۔
گریٹر اسرائیل منصوبہ مذہبی امیدوں، تاریخی دعوؤں اور سیاسی عزائم کا ایک پیچیدہ امتزاج ہے، نیتن یاہو کی موجودہ حکمت عملیوں نے مسلم دنیا میں یہ تاثر نہیں بلکہ یقین پیدا کر دیا ہے کہ یہ منصوبہ اسرائیلی ترجیحات میں شامل ہے، اسی لیے عالمی برادری کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ اس معاملے کو محض ردعمل یا بیان بازی کی سطح پر نہ چھوڑے بلکہ تحقیقی، سفارتی اور قانونی ذرائع کے ذریعے اس پر روشنی ڈالے تاکہ خدشات اور حقائق کے درمیان فرق واضح ہو اور خطے کے عوام کے لیے ایک پُرامن اور باوقار مستقبل کی راہ ہموار ہو سکے۔









آپ کا تبصرہ