تحریر: مولانا حافظ سید ذہین علی نجفی
حوزہ نیوز ایجنسی| وطن عزیز میں ہر سال مختلف آفات اور بلیات رونما ہوتی ہیں، جن میں سیلاب، طوفان، زلزلے، دیگر قدرتی آزمائشیں شامل ہیں۔ یہ صرف قدرتی حادثات نہیں، بلکہ اللہ کی طرف سے ایک موقع بھی ہیں کہ ہم اپنی زندگی اخلاق اور سماجی ذمہ داریوں پر غور کریں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک کے ساتھ، اور مالوں، جانوں اور پھلوں (یعنی پیداوار) کے نقصان سے، اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دو۔ (سورۃ البقرہ)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ آفات ایک آزمائش اور نصیحت دونوں کا ذریعہ ہیں۔
آفات اور بلیات دو طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک طرف وہ قدرتی ہیں جیسے زلزلے، طوفان، سیلاب اور قحط۔ دوسری طرف وہ انسانی و معاشرتی بلیات ہیں جن میں ظلم، ناانصافی، کرپشن اور انسانی حقوق کی پامالی شامل ہیں۔ یہ سب انسان کو سوچنے، غور کرنے اور اپنی اصلاح کی طرف متوجہ کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔
آزمائش اور عذاب میں فرق
آفات اس وقت آزمائش کا روپ اختیار کرتی ہیں جب اللہ چاہتا ہے کہ بندہ صبر، شکر اور اخلاق کی تربیت حاصل کرے۔ لیکن جب انسان ظلم، فساد اور غفلت میں ڈوبا ہو تو یہی آفات عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ تاریخ میں قوم عاد و ثمود کی مثال اس بات کو واضح کرتی ہے کہ اللہ کی ہدایت سے روگردانی کرنے والے اپنی سرکشی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے۔
پاکستانی معاشرہ اور انتظامی کمزوریاں
پاکستان میں سیلاب اور بارش کے بعد وقتی ریلیف تو دیا جاتا ہے لیکن اکثر متاثرہ علاقوں میں بنیادی سہولیات نہیں پہنچتیں۔ ریلیف فنڈز میں کرپشن اور بدانتظامی کی وجہ سے اصل ضرورت مند محروم رہ جاتے ہیں۔ یہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ انسانی کمزوریاں اور انتظامی کوتاہیاں بھی بڑی تباہی کا باعث بنتی ہیں۔
آفات میں چھپی حکمت
اللہ نے زمین و آسمان میں پیدا ہونے والی آفات میں کئی حکمتیں رکھی ہیں۔ یہ انسان کی غفلت دور کرنے، اللہ کی یاد دلانے، سماجی اصلاح کرنے اور ناانصافی کو بے نقاب کرنے کے لیے بھیجی جاتی ہیں۔ آفات حکمرانوں اور عوام دونوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلاتی ہیں۔
عوام کو چاہیے کہ صرف وقتی ریلیف پر خوش ہو کر غافل نہ ہو جائیں۔ ہر آفت پر غور کریں کہ ہماری زندگی، اخلاق اور معاشرت کس حد تک درست ہیں۔ صبر، شکر اور توبہ کو اپنائیں اور آئندہ کے لیے اپنی تیاری اور ذمہ داری کو یقینی بنائیں۔
حکمرانوں کی ذمہ داری
حکمرانوں پر لازم ہے کہ عوام کی حقیقی فلاح اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔ قدرتی آفات کے وقت فنڈز کے نام پر کرپشن عوام کو مزید نقصان پہنچاتی ہے۔ قرآن مجید میں واضح حکم ہے: اور انہیں نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو۔
یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ عوام میں نیکی کو فروغ دیں اور برائی کو روکیں۔
نتیجہ:
آفات صرف حادثات نہیں بلکہ خدا کی طرف سے نصیحت، ہدایت اور اصلاح کا ذریعہ ہیں۔ اگر ہم انہیں سمجھیں اور ان پر عمل کریں تو یہ دنیا و آخرت میں کامیابی کا سبب بن سکتی ہیں۔ لیکن اگر انہیں نظر انداز کریں تو نقصان اور تباہی ہمارا مقدر بن جاتی ہے۔
عوام، حکمران اور تمام تنظیمی ادارے اپنے رویوں پر غور کریں۔ جہاں کمی اور کوتاہی ہے اسے درست کریں۔ مستحق کو اس کا حق دیں اور مدد کے نام پر تذلیل نہ کریں۔ یاد رکھیں یہ دنیا ہی سب کچھ نہیں بلکہ اصل منزل آخرت ہے۔ حکومتوں پر لازم ہے کہ ایسے اقدامات کریں کہ ہر سال یہ بدنظمی نہ دہرائی جائے۔ عوام کا اعتماد بحال کریں اور اخلاص کے ساتھ خدمت کو شعار بنائیں تاکہ لوگ یہ نہ کہیں کہ "سیلاب آیا تو ان کی دیہاڑی لگ گئی، ہمیں کچھ نہ ملا۔"
یاد رکھیں! ظالم کا دن مظلوم پر ظلم کے دن سے کہیں زیادہ سخت ہوگا۔









آپ کا تبصرہ